فیصلہ کامیابی یا ناکامی
ہم میں سے ہر شخص کو اپنی اپنی زندگی میں مختلف فیصلے لینا ہوتے ہیں۔اکثر ہم خود کو ایک دوراہے پر کھڑا پاتے ہیں کریں یا نہ کریں۔یہی فیصلے کبھی ہمیں پستیوں سے اٹھا کر بلندیوں پر لے جاتے ہیں اور کبھی اپنے ہی کسی فیصلے کی وجہ سے آسمان سے زمین پر پٹخ دیے جاتے ہیں۔
اور کبھی کسی فیصلے پر خود کو شاباش دینے کو دل چاہتا ہے کہ بروقت اور درست فیصلے نے ہماری زندگی سنوار دی اور کبھی کسی غلط فیصلے کے بعد تاحیات کف افسوس ملتے نظر آتے ہیں۔
کاش یہ نہ کیا ہوتا، کاش وہ نہ کرتےوغیرہ وغیرہ
حالانکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم خاتم النبیین نے ” لو ” یعنی ” کاش ” کو شیطان سے منسوب کیا۔ گویا ہمارا ہر فیصلہ کچھ اہم باتوں کا متقاضی ہوتا ہے جب ہم ان کا دھیان رکھیں تو کامیاب ہو سکتے ہیں۔ اسی طرح چند غلطیاں ہیں جن کو ہم فیصلہ کرتے ہوئے ملحوظ خاطر رکھیں تو نقصان سے حتیٰ الوسع بچ سکتے ہیں۔
عموماً ہم فیصلے اپنے جذبات کے تحت یا کسی پیارے کی خواہش پر کر رہے ہوتے ہیں جب نتیجہ غلط نکلتا ہے تو ڈپریشن، اینگزائٹی، فرسٹریشن، شوگر، بلڈ پریشر جیسی بیماریوں کاشکار ہو کر عضو معطل بن جاتے ہیں یا سارا کیا دھرا قسمت کے سر منڈھ کر خود بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔ چند اہم باتیں جن کو اگر ہم فیصلہ کرتے ہوئے مدنظر رکھیں تو اپنی اور اپنے بچوں کی زندگی کامیاب بنا سکتے ہیں مثلاً
1۔فیصلہ کیسے کرنا ہے:
جب بھی کوئی فیصلہ لینے لگیں تو سب سے پہلے یہ جائزہ لے لیں کہ فیصلہ کیسے لینا ہے۔ میں نے اکیلے یا اپنی فیملی کیساتھ مل کر۔
اب یہ بات کام کی نوعیت بتائے گی کہ اگر تو صرف مجھ متعلق ہے تو میں اکیلے فیصلہ کر سکتی ہوں لیکن اگر وہ میری فیملی سے متعلق ہے یا فیصلہ تو میرا ہو گا لیکن وہ براہ راست میری فیملی پر اثر انداز ہو گا تو ایسے میں مجھے اپنے والدین، شوہر، بچوں جس جس پر اثر انداز ہو سکتا ہے سب کو اعتماد میں لینا ہو گا۔ایسا کرنا آپ کے گھر یا ادارے کی فضا کو بہتر بنا دے گا اور آپ کے خاندان والے یا ماتحت افراد آپ سے تعاون کریں گے۔
اسی طرح جذبات میں کیے فیصلے ہمیشہ غلط ہوتے ہیں حدیث نبوی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا ”محبت اندھا کر دیتی ہے.
اسی طرح غصے کو حرام قرار دیا گیا۔ کیوں؟ اس لیے کہ ہم عموماً یا تو محبت میں اندھے ہو کر کسی دوسرے کا حق کھا جاتے ہیں یا زیادتی کر بیٹھتے ہیں اور اسی طرح غصے میں بھی عقل کھو کر منفی عمل کر بیٹھتے ہیں بعد میں روتے پھرتے ہیں کہ غصے میں تھے اس وقت سمجھ ہی نہیں آئی۔
2۔ کچھ ریسرچ کر لیں:
یعنی اگر آپ نے کوئی چیز خریدنے کا فیصلہ کیا ہے تو اس پراڈکٹ کے بارے معلومات اکٹھی کر لیں، ریویوز دیکھیں کہ لوگوں کی کیا رائے ہے، اسی طرح مارکیٹ میں قیمتوں کا جائزہ لے لیں۔ اگر کسی کام کے متعلق ہے تو بھی اس کام کے لوگوں پر اثرات یا کامیابی وناکامی کو دیکھ لیں۔گویا تجربے سے قبل مشاہدہ کر لیں۔
3۔تنقیدی جائزہ:
یہ بات بھی بہت اہم ہے کہ کوئی بھی فیصلہ جلد بازی میں کرنے کی بجائے ہم پورے حواس کے ساتھ سوچ بچار کے بعد کریں۔ اس چیز یا کام کے ہم پر کیا اثرات پڑ سکتے ہیں؟
اسکے فائدے اور نقصانات کیا ہو سکتے ہیں؟
مزید مواقع کون سے میسر آسکتے ہیں؟
اسی طرح یہ بھی کہ میرے فیصلے کی راہ میں کیا کیا رکاوٹیں اور مسائل آسکتے ہیں؟
4۔ فہرست بنا لیں:
آپ کے پاس متوقع آپشنز کیا ہیں؟ کن لوگوں سے مدد لے سکتے ہیں۔ اس کے متبادل کیا چیزیں بن سکتی ہیں؟
ہمیشہ حقیقت کی دنیا میں رہ کر کام کریں، خوابوں کی دنیا میں سوچے گئے فیصلوں کا حقیقی زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ۔
بچہ بیچارا سبق بھی یاد نہیں کرسکتا اور ہم ڈاکٹر یا انجنئیر بنانے کا سوچیں۔
5.درست انتخاب:
سامنے موجود آپشنز میں سےدرست آپشن کا انتخاب آپ کے فیصلے کو بہترین بنا سکتا ہے.
بچہ اسکول میں داخل کروانا ہے بہت سے ادارے ہیں لیکن مجھے اپنا بچہ کیا بنانا ہے؟ اسی کے مطابق مجھے سکول کا انتخاب کرنا ہے۔
اسی میں مجھے اپنا بجٹ بھی چیک کرنا ہے یعنی چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانے ہیں۔ جب ہم اپنی یادوسروں کی خواہشات کی تکمیل کے لیے بغیر سوچے سمجھے خرچ کرتے ہیں تو یہ چیز ہمیں قرضوں کے بوجھ تلے دبا دیتی ہے۔
اپنے فیصلے کی فائدوں اور نقصانات کا لکھ کر چارٹ تیار کریں یا کم از کم ذہن میں یہ تیاری کریں تاکہ ہم درست فیصلہ کرنے میں کامیاب ہو سکیں۔
6. اس فیصلے یا اس جیسے فیصلے کے سابقہ مسائل کا جائزہ لیکر پھر فیصلہ لیں یہ بات آپ کو سابقہ مشکلات سے بچاسکتا ہے۔
آخر میں سب سے اہم بات یہ کہ جہاں کہیں آپ یکسو نہیں ہو پارہے تو استخارہ کرلیں۔ اس سے اللہ کی مدد آپ کے فیصلے میں شامل ہو جائے گی،
حدیث مبارکہ ہے کہ” مشورہ کرنے والا کبھی ناکام نہیں ہوتا اور استخارہ کرنے والا کبھی نا مراد نہیں ہوتا. “
یہ باتیں یقیناً آپ کو آئندہ کے فیصلوں میں رینما ثابت ہوں گی۔
آئندہ ان شاء اللہ ان اہم غلطیوں کیساتھ حاضر ہوں گی جو ہمارے فیصلوں کمزور کر دیتی ہیں۔ ہمارے درست فیصلے ہمارے گھروں اور اداروں کو مضبوط اور ہماری زندگیوں کو خوشگوار بنا سکتے ہیں۔ اسی کو حکمت اور دانائی کہتے ہیں، جس کے بارے میں ارشاد رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہے کی
” من اوتي الحكمة فمن اوتي خیراً کثیراً“
جسے حکمت عطا کی گئی گویا اسے خیر کثیر عطا کی گئی۔
اللہ تعالیٰ ہمیں بہترین فیصلے کرنے والا بنا دے۔ آمین