بندہ مزدور‎‎

ایک نئی امید کیساتھ اس نے دور سے آتی چمچماتی کار کو دیکھا تھا، جیسے جیسے وہ قریب آتی گئی اسکی آنکھوں میں روشنی سی جھلملائی کیونکہ اسے لگا کہ وہ کار اس کی طرف آ رہی ہے اور ڈرائیور اسے ہی دیکھ رہا ہے۔ اسکے دل کی دھڑکن کار کی رفتار کیساتھ ساتھ بڑھ رہی تھی ۔ کار قریب آئی ،آہستہ ہوئی اور اس کا چہرہ امید کی تازگی سے کھلا تھا مگر یہ تازگی چند سیکنڈز کی تھی کیونکہ کار چوک کا موڑ مڑنے کو آہستہ کی گئی تھی اور ڈرائیور اس کے احساسات سے بے خبر آگے بڑھ چکا تھا۔

اس کے ساتھ ایسا آج صبح دس بجے سے لے کر ڈھلتی دوپہر تک ہو رہا تھا ۔ وہ شہر کے چوک میں گرد سے اٹے فٹ پاتھ پر مزدوری کے میلے کپڑوں میں بیٹھا کام کی تلاش میں تھا ۔ مگر ہر گاڑی اس کے قریب آ کر ، کام ملنے کی امید جگا کر یونہی گزر جاتی۔اس کے بعد وہ دائیں، بائیں اور سامنے سے آنے والی گاڑیوں کا انتظار کرتا اور مزدوری ملنے کی آرزو میں خاک پھانکتا مگر ابھی تک کسی نے کام کے لیے نہیں کہا تھا۔

کتاب کے پیسے ۔۔۔۔ کتاب کے پیسے ۔ نگاہ اگرچہ سڑک پر تھی مگر دل کی دھڑکن یہی پکار رہی تھی، کتاب کے پیسے – کتاب کے پیسے۔

آج صبح ہی اسکی ننھی پری نے چھوٹے چھوٹے گداز ہاتھ اس کے آگے پھیلائے تھے۔ کہ بابا کچھ پیسے دیں،باہر آئس کریم آئی ہے۔

اسکی جیب میں چند تڑے مڑے سے باسی نوٹ باقی بچے تھے جو کل شام گندم کی چند بوریاں ٹرک میں سوار کرنے پر اسے مزدوری میں ملے تھے ۔کچھ کا سودا سلف آگیا تھا اور باقی نوٹ نکال کر اس نے اس معصوم بے فکر گڑیا کے ہاتھ پر رکھ دیے تھے۔ کچھ منٹ کے بعد بڑے مزے سے آئس کریم چاٹتے ہوئے اس نے اپنے باپ کے سر پر بم پھوڑا تھا جب اس نے مزید دو سو روپے کا تقاضا کیا تھا کیونکہ اس نے گریڈ پنجم کی ایک کتاب خریدنی تھی۔ پیسے اسکول نہ لے جانے کے سنگین نتائج سے بھی ڈرا دیا تھا۔ تو مجبوراً اسے اپنی آرام دہ بان کی چارپائی سے اٹھ کر ، میلے سے کپڑے کو کندھے پر ڈال کر زنگ آلود سائیکل نکال کر شہر کے چوک میں آنا پڑا جہاں مزدور کام کی تلاش میں قطار در قطار بیٹھے آنے والی گاڑیوں اور پیدل چلتے لوگوں کی طرف کام کی امید میں دیکھتے تھے مگر ابھی تک کسی نے نہیں کہا ۔

یار آج تو تم آرام کرنے والے تھے ،لیکن پھر کام پر کیوں چلے آئے۔ ،، ساتھ بیٹھے مزدور نے پوچھا۔ بس دل نہیں مانا آرام کرنے کو، اور کچھ پیسوں کی بھی ضرورت آ پڑی تھی ، اس لیے چلا آیا،، اس نے کندھے پر رکھے میلے سے کپڑے کیساتھ پسینہ صاف کرتے ہوئے کہا۔۔لیکن آرام کرنے کا ارادہ تو تمہارا بھی تھا ، اور تم بھی تو چلے آئے ،، کچھ لمحے سوچنے کے بعد اس نے ساتھی مزدور سے پوچھا۔۔اصل میں گندم لوڈ کرنے کی مزدوری ملنے پر ان سب کو کچھ دنوں کا سودا سلف مل گیا تھا اور وہ آج “آرام” کی عیاشی کرنے والے تھے،، ہاں یار ! بچے کو بخار تھا ، کل جو پیسے ملے وہ بھی علاج پر لگ گئے لیکن ابھی بخار کا فرق نہیں پڑا ۔ سوچا مزید پیسوں کی ضرورت پڑ سکتی ہے، سو چلا آیا ” اس نے سپاٹ چہرے کیساتھ کہا، اور پھر آہستہ آہستہ فٹ پاتھ پر ایسے ضرور مند مزدوروں کی قطار لمبی ہوتی گئی جو آج کام نہ کرنے کی عیاشی کرنے والے تھے ۔۔

شہر کے چوک سے گزر کر پانچ منٹ کی مسافت پر ایک شاندار ہوٹل میں مزدوروں کے عالمی دن کے حوالے سے دھواں دھار تقاریر ہو رہی تھیں، شہر بھر کے دانشور اپنے فلسفے بگھار رہے تھے اور بڑھی ہوئی توندوں کے امیر مہمانان خصوصی تالیاں پیٹ پیٹ کر انہیں خراج پیش کر رہے تھے۔ انکی ضیافت کو دوسرے ہال کمرے میں روسٹ،بریانی اور کولڈ ڈرنکس خوبصورت جھالروں والی چادروں سے مزین میزوں پر سجائی گئی تھیں۔ لیکن ان امیران شہر کو یہ بلکل خبر نہیں تھی کہ ہوٹل سے چند منٹ کی مسافت پر مزدورں کی ایک لمبی قطار ہے کہ جن میں سے کسی کے گھر راشن کی کمی تو کسی کے گھر دوائیوں کی ضرورت تھی اور کسی کو قرض کی ادائیگی کرنا تھی تو کسی کو بچے کی فیس پوری کرنا تھی۔ کوئی بل کی بھرتی کے لیے پریشان ہے تو کسی کو بہن کے سسرال اسکی ناک اونچی رکھنی تھی اور کوئی بیٹی کے جہیز کے لیے فکر مند تھا۔ اس لیے وہ سب آج یکم مئی کو بھی کام کے لیے گھر سے آ گئے تھے۔

لیکن یہ بات ان نادان مزدوروں کو کون سمجھائے کہ آج یکم مئی ہے ، آج دن منایا جا رہا ہے۔ آج کوئی کام نہیں ہو گا ۔ آج کسی مزدور کو کوئی تکلیف نہیں دی جائے گی۔ آج کسی مزدور کی توہین نہیں کی جائیگی ۔