نوے کی دہائی کا زمانہ تھا ہم بچے لڑکپن کی حدوں کو چھورہے تھے۔ اس زمانے میں ہماری واحد تفریح کتاب اور صرف کتاب ہوتی۔ ٹیلی ویژن اکثر گھروں میں بطور تفریح موجود تو تھا لیکن میڈیا ابھی بے لگام نہ ہوا تھا۔
صبح اسکول کی تیاری کرتے کرتے مستنصر حسین تاڑر اور قرۃالعین کی دلچسپ معلوماتی گفتگو سنتے تو شام چار بجے لونی ٹیونز یا سمرف کے کارٹون بیس منٹ کی تفریح دیتے اوررات آٹھ بجے والا ڈرامہ ایک بھرپور فیملی ٹائم ہوتا۔ نہ ریمورٹ کا جھگڑا نہ چینل پہ پھڈا اماں ابا اور بچے تینوں اوقات میں مشترکہ تفریح سے لطف اٹھاتے ساتھ ساتھ میں دلچسپ تبصرے لطف دوبالا کردیتے۔
جیسےجیسے موسم گرما کی طویل اور صبر آزما چھٹیاں شروع ہوتیں ہم سارے چچا، تایا زاد کتابی کیڑے بن جاتے۔ ارے! نہیں نہیں نصاب کی کتابیں نہیں، رسالے اور ناول جن میں پھول، بچوں کا باغ، تعلیم وتربیت، پیغام اور نونہال سرفہرست ہوتے جب یہ ختم ہوجاتے تو عمروعیار کی دلچسپ کہانیوں کی باری آتی۔ جب ان کا اسٹاک بھی ختم ہو جاتا تو کسی کزن بھائی کی مدد لی جاتی جو قریبی لائبریری سے نسیم حجازی یا اشفاق احمد کا کوئی نیا ناول روزانہ کی بنیاد پر فراہم کرتا۔ پاکٹ منی سے پیسے بچا بچاکر کرائے اور رسالوں کا لین دین ہوتا ذرا بڑے ہوئے توعمران سیریز، ابا کا جاسوسی اورامی کے کرن، شعاع اور خواتین کتابوں میں رکھ رکھ کر پڑھے۔ غرض سب سے بڑی اور بہترین تفریح کتاب ہی کو پایاپی ٹی وی اور کتاب کی تفریح کے بہترین امتزاج نے جہاں زندگی کو پرکھنے کا طریقہ سکھایا وہیں ایک پرامن اور خوبصورت زندگی گذارنے کا شعور بخشا۔ کتاب دوستی نے نہ صرف بڑوں کی عزت واحترام سکھایا بلکہ خاک اور خون، شاہین اور محمد بن قاسم جیسے ناولوں نےاپنے دین کے لیے اپنا آپ نچھاور کر دینے کا ہنر بھی سکھایا۔
پھر وقت گزرا اور سائنس نے ترقی کر لی جدید دور نےٹی وی کو وسعت دی پہلےڈش آئی اور اس کے بعد انٹر نیٹ کی دنیا نے بے تحاشا مادر پدر آزاد چینلز کو روشناس کروایا، زمانہ تھوڑا اور آگے سرکا اور ہر ہاتھ میں اینڈرائیڈ اور آئی فون آگئے۔ ویب کی ایجاد نے سوچوں اور ذہنوں کو بھی جالے لگا دیے کتاب کی جگہ ٹیب نے اور قلم کی جگہ کی بورڈ نے لے لی۔
ترقی بری نہیں ترقی کے ہاتھوں تباہی بری ہے، مائیں چھے مہینے کے بچے کے ہاتھ میں موبائل دے کے خوش ہوتی ہیں اور وہی جب چھے سال کی عمر میں اپنے سے چھوٹوں سے جھگڑتا ہے تو خوار ہوتی ہیں۔
روز مائیں آکر رونا روتی ہیں کہ بچے آپس میں جھگڑتے بہت ہیں جب کتابوں والے ہاتھوں میں ریمورٹ پکڑا کر خود برتنوں اور کپڑوں کی خریداریوں یا نان اسٹاپ ڈراموں کے دیکھنے میں لگیں گی تو بچے خود رو پڑھتے پودوں کی طرح الجھیں گے بھی اور آڑھے ترچھے بھی ہوں گے۔
آج بھی ایسے گھرانے موجود ہیں جہاں ٹی وی اور کمپیوٹر اپنی حد میں استعمال ہوتے ہیں اور بچوں کو ہوش سنبھالتے ہی کتاب سے متعارف کروایا جاتا ہے نمبروں کے لیے نہیں بلکہ دوستی کے لیے۔ ایسے گھروں میں نہ تو بچوں کا شور سنائی دیتا ہے اور نہ ہی جھگڑے اور دیکھنے میں آیا ہے کہ ایسے گھرانوں کے بچے اخلاقیات، بول چال، تہذیب، تربیت اور زندگی گزارنے کے طریقوں میں بہترین ہوتے ہیں۔
وقت جتنا بھی چاہے ترقی کر جائے کتاب کی حیثیت مسلمہ رہے گی ۔آپ بھی اپنی نسلوں کو کتاب کاتحفہ دیجئیے۔ پھر دیکھیے تربیت کے لیے ہلکان نہیں ہونا پڑے گا۔ آزماکر دیکھیے۔