ہم اکثر سنتے رہتے ہیں کہ تعلیمی نظام کو جدید خطوط پر استوار کیا جائے اور ایسے نئے مضامین پڑھائے جائیں جو نوجوانوں کو عملی اور پیشہ ورانہ زندگی میں کام آ سکیں۔اس کا ایک فائدہ تو نئے روزگار کی فراہمی میں صورت میں برآمد ہو سکتا ہے اور دوسرا مختلف نئے ابھرتے ہوئے شعبہ جات میں افرادی وسائل کی ضروریات بھی احسن طور پر پوری کی جا سکتی ہیں۔اس ضمن میں حالیہ دنوں چین سے سامنے آنے والی ایک خبر نے نظام تعلیم میں جدت کی اہمیت کو نمایاں طور پر اجاگر کیا ہے اور بتایا ہے کہ ہمیں بدلتے وقت کے تقاضوں کی روشنی میں جدید مضامین کو اپنے تعلیمی نصاب میں شامل کرنا چاہیے۔تفصیل کچھ یوں ہے کہ چینی وزارت تعلیم نے انڈر گریجویٹ میجرز کی فہرست میں 21 نئی اقسام کے مضامین شامل کیے ہیں جن کی قومی ترقی سے وابستہ حکمت عملیوں اور علاقائی ترقی کے لئے اشد ضرورت ہے۔اس اقدام سے یونیورسٹیوں کی متعلقہ بڑے اداروں تک رسائی میں رہنمائی کی جاسکے گی، جیسے کراس انجینئرنگ زمرے کے تحت فیوچر روبوٹ کورس، جو پہلی مرتبہ انجینئرنگ کے مضمون کے تحت اعلیٰ انٹرڈسپلنری ٹیلنٹ کو پروان چڑھانے کے لئے ڈیزائن کیا گیا ہے۔فیوچر روبوٹس کے ساتھ ساتھ دیہی گورننس کے موضوعات کو نئے انڈر گریجویٹ میجرز کے طور پر شامل کیا گیا ہے،اس حوالے سے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ چین کی مصنوعی ذہانت (اے آئی) کی ترقی کو فروغ دینے اور دیہی زندگی اور مشترکہ خوشحالی جیسی ملک کی قومی حکمت عملیوں کو بہتر طریقے سے آگے بڑھانے کے لئے نیا ٹیلنٹ فراہم کرسکتے ہیں۔
چینی ماہرین نے اس حوالے سے فیوچر روبوٹس اور دیہی گورننس کے اہم پہلوؤں پر بھی روشنی ڈالی ہے اور انجینئرنگ کے موضوعات پر بڑی ایڈجسٹمنٹ پر زور دیا ہے، کیونکہ ان دونوں شعبہ جات میں انسانی وسائل کی ترقی، چین کی سماجی اور معاشی ترقی کو فروغ دینے کے لئے انتہائی اہم ہے۔ مثال کے طور پر،
فیوچر روبوٹس کا شعبہ اعلیٰ درجے پر مصنوعی ذہانت کی ترقی کو فروغ دینے کے لئے ٹیلنٹ تیار کرے گا، کیونکہ آج کے جدید دور میں مصنوعی ذہانت نے زیادہ سے زیادہ شعبوں میں اپنے کمالات دکھانا شروع کردیے ہیں اور اس کے اطلاق کا دائرہ کار بھی مسلسل بڑھ رہا ہے۔اسی طرح دیہی گورننس میں شامل طلباء ”دیہی زندگی” اور ”مشترکہ خوشحالی” کے حصول میں اپنا کردار ادا کریں گے، یہ دونوں تصور دولت کے فرق کو کم کرنے اور مساوات کو فروغ دینے کی بات کرتے ہیں۔یاد رہے کہ چین نے 2017 میں دیہی حیات کاری کی حکمت عملی تجویز کی تھی، جس میں یہ ہدف مقرر کیا گیا تھا کہ تمام چینی عوام، چاہے وہ شہروں میں ہوں یا دیہی علاقوں میں، 2035 تک بنیادی عوامی خدمات تک مساوی رسائی حاصل کریں گے، اور 2050 تک دیہی علاقوں میں مضبوط زراعت، خوبصورت مناظر اور خوشحال کسان ہوں گے۔
اسی طرح دیگر نئے بڑے میجرز میں ڈیٹا سائنس، بایومیٹریلز، نیشنل پارک کی تعمیر، بیرئیر فری مینجمنٹ، فیملی ایجوکیشن اور آٹزم کے شکار بچوں کے لیے تعلیم وغیرہ شامل ہیں۔یہ امر قابل زکر ہے کہ عہد حاضر کی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے چینی وزارت تعلیم نے 2800 سے زیادہ انڈر گریجویٹ میجرز کا تعین، منسوخ یا پھر انہیں ایڈجسٹ کیا ہے، جن میں انجینئرنگ سے متعلق شعبہ جات کو نمایاں اہمیت دی گئی ہے۔ یہ اقدام ملک کی اس کوشش کی عکاسی کرتا ہے کہ وہ خود کو مقدار کے مینوفیکچرر سے معیار کے مینوفیکچرر میں اپ گریڈ کرنے کے لیے کوشاں ہے، جس کے لئے ٹیلنٹ کلیدی بنیاد ہو گی۔ یہی وجہ ہے کہ انڈر گریجویٹ میجرز کی تقسیم کو مزید بہتر بنایا گیا ہے تاکہ ملک کی معاشی اور سماجی ترقی کو فروغ دینے میں یونیورسٹیوں کے فعال کردار کو بروئے کار لایا جا سکے اور اُن کی صلاحیت میں مزید اضافہ ہو سکے۔
چین نے 2015 میں خود کو ”عالمی مینوفیکچرنگ پاور” میں ڈھالنے کے منصوبے کا اعلان کیا تھا جسے 2025 تک مکمل کیا جائے گا۔ اس منصوبے کا مقصد جدت طرازی، انوویشن کی صنعتی بنیاد اور سبز ترقی کوفروغ دیتے ہوئے چین کو مصنوعات کے اعلیٰ درجے کے پروڈیوسر میں تبدیل کرنا ہے۔اس تناظر میں چین کی جانب سے جدید مضامین کو نظام تعلیم کا حصہ بنانا،جہاں نئے ٹیلنٹ کو پروان چڑھانے میں مددگار ہو گا وہاں یقیناً ملک ہنرمند افرادی قوت کے وسائل میں بھی خود کفالت کی جانب تیزی سے بڑھے گا۔