میرے دیس میں چاند اپنی چاندنی بکھیرنے میں بخل نہیں کر رہا، دریاوں میں وہی روانی ہے ۔ٹھنڈی اور جان پرور ہواوں میں وہی نمی اور خوشبوبسی ہوئی ہے۔ سورج کی تپش دھرتی کے سینے پہ سوئی ہوئی نباتات کو گدگدا کر جگا رہی ہے ،سب کچھ پہلے جیسا ہی ہے جانور اور پرندے اپنے معمول کی زندگیوں میں مگن ہیں لیکن بندہ بشر کی ہستی میں ایک بےبسی اور بے چارگی در آئی ہے۔
جدھر نگاہ ڈالوبھوک کے ستائے ہوئے لوگوں کا ہجوم نظر آتا ہے ۔اشیا خوردو نوش کی وافر مقدار پاکستان میں پیدا ہوتی ہے جن میں سبزیاں، دالیں، اناج، پھل اور دودھ کی پیداوار شامل ہے۔ مٹر کی کاشت میں پاکستان کا دوسرا نمبر ہے گنے کی پیداوار میں چوتھے جبکہ پیاز اور دودھ کی پیداوار میں پانچواں نمبر ہے۔ لیکن نہ تو چینی آسانی سے عوام کو میسر ہے اور نہ دودھ ہی خالص ملتا ہے ۔گندم کی پیداوار میں ساتواں بڑاملک ہے مگر عوام آٹے کے حصول کے لیے جس قدر ذلیل ہو رہے ہیں ایسا نہ کبھی دیکھا نہ سنا۔ مفت آٹے کی تقسیم کے دوران بھگدڑ مچنے اور دھکم پیل سے کئی زندگیاں موت کی دہلیز پار کر گئی ہیں۔ صبح آٹا لینے گئے ہوئے باپ کی منتظربھوکی آنکھوں کو روٹی دیکھنے کے بجائے والد کی لاش دیکھنا پڑ جاتی ہے۔ کئی معصوموں کو بھوک کی اذیت سہنے پر مجبور کیا جا رہا ہے وہ کھیل کود اور شرارتیں کرنا بھول گئے، انہیں یہ تک یاد نہیں کہ خواہش کسے کہتے ہیں، انہیں صرف روٹی چاہیئے جو انہیں موت کی چکی میں پسنے سے بچائے۔
معاشرے کے وہ افراد جو ساری عمر اپنی شرافت کی رکھوالی کرتے آئے ہیں اب لمحہ لمحہ مرنے لگے ہیں، ان کی خودداری کسی در پہ سر جھکانے نہیں دے رہی اور دوسری طرف بھوک سے بلکتے بچوں کی فریاد کلیجہ پھاڑ رہی ہے۔
مفت آٹا تقسیم تو ہو رہا ہے لیکن ناقص انتظام کے باعث مستحقین کی کثیر تعداد اس سے محروم رہتی ہے۔ لوگ اپنے گھر کی قیمتی چیزیں اور عمر بھر جمع کی ہوئی کتابیں کباڑئیے کو فروخت کر کے دس کلو آٹا خریدنے پر مجبور ہیں ۔نا اہل اور بے ایمان لوگوں کے ہاتھوں عوام کی اتنی تذلیل دنیا کی کبھی نہیں دیکھی ہو گی۔ قدرت نے پاکستان کو ہر قسم کی نعمت سے نواز رکھا ہے گیس کے ذخائر کے حوالے سے براعظم ایشیا میں چھٹا بڑا ملک ہے مگر عوام گیس سے محروم ہے اور ستم ظریفی تو دیکھیئے کہ گیس کا بل ہزاروں میں آرہا ہے۔ کوئلے کے ذخائر کو صحیح طریقے سے کام میں لا کر بجلی پیدا کی جائے توملک کئی عشروں تک خود کفیل ہو سکتا ہے۔
روزانہ لاکھوں کیوسک پانی جو ضائع ہو رہا ہے اگر مناسب حکمت عملی اپنائی جائے تو بنجر زمینوں کو قابل کاشت بنا کر خوشحالی لائی جا سکتی ہے لیکن سب کچھ ہونے کے باوجود ہمیں غربت اور پسماندگی کے گڑھے میں دھکیلا جا رہا ہے ۔دریوزہ گری کا کشکول ہمارے ہاتھوں میں تھما کر ہماری غیرت کو کچلا جارہا ہے۔ آئی ایم ایف کی غلامی کا طوق ہمارے گلے میں ڈال کر ہماری خودداری کا گلا گھونٹا جا رہا ہے۔مہنگائی نے ملک کو گھٹنوں کے بل چلنے کے قابل بھی نہیں چھوڑا۔
ہمارے”بڑے” اپنی دھن پروری میں ایسے مگن ہیں کہ انہیں بھوکے اور مفلوک الحال عوام کی پکار سنائی ہی نہیں دے رہی ۔ لوٹ کھسوٹ سے انہیں فراغت ملتی ہے تو بڑی بے شرمی سے ایک دوسرے پر دشنام نچھاور کرتے ہیں ۔ایسے ایسے القابات سے ایک دوسرے کی مدح سرائی کی جاتی ہے کہ شریف آدمی سن کر سر نہ اٹھا سکے۔ اپنی طعن آلود زبان اور جملوں کے زہریلے ڈنک سے یوں للکارتے ہیں جیسے ابھی کفر کے خلاف صف آرائی ہوئی ہے اور “حق کے یہ سپوت” اسلام کے دشمن کو موت کے گھاٹ اتار کر ہی دم لیں گے۔ ان کی ایک دوسرے کے لیے نفرت اور تحقیر اس لیے نہیں کہ یہ ملک کی خدمت کر رہے ہیں یا انہیں عوام کی فکر ہے اور ان کے مستقبل کو سنوارنے کی تگ ودو میں لگے ہیں بلکہ ان کی نہ ختم ہونے والی حرص اور لالچ نے سب کے سامنے ہماری جگ ہنسائی کر دی ہے ۔ پیسے کے بھوکے ان لوگوں کے ذہنوں میں کشادگی کا فقدان ہے۔
برداشت کی صفت اور انسانیت سے عاری یہ لوگ بھلا کیسے گلستان سازی کا فریضہ سر انجام دیں گے۔۔۔ان کی جہالت نے پاکستان کے ساتھ سوتیلوں جیسا سلوک روا رکھا ہے۔ ہم جس فضا میں سانس لینے کے عادی تھے اب اس میں تناو اور گھٹن ہے، جہاں خوشحالی کے گیت گائے جاتے تھے اب وہاں بھوک اور افلاس کی کراہ سنائی دیتی ہے۔ آج یہ دن بھی دیکھنا پڑ رہا ہے کہ بیٹے اسے دھرتی ماں کے ساتھ دشمنوں جیسا سلوک کر رہے ہیں جس نے انہیں اپنی آغوش میں پناہ دی کھلایا پلایا پروان چڑھا کر ایک نام اور مقام دیا ملکی وقار کو پائمال کرنے والے ان ” بیٹوں ” پر صد افسوس !