باجی ! اللہ کے نام پہ کچھ دے دے اے باجی دے دینا کچھ تو دے دینا۔ گاڑیوں کے آگے پیچھے مسلسل بھاگتی نرمین ہاتھ پھیلائےبھیک مانگ رہی تھی مگر چاند رات کی اس بھیڑ میں کون اسے دس بیس دینے میں وقت ضائع کرتا۔
سڑک پر رکی لمبی سی گاڑی کا شیشہ بجا کر نرمین نے پھر آواز لگائی اے باجی دے دینا اللہ تیرے بچے جیئیں، میرے بھی چھوٹے چھوٹے بچے ہیں باجی مگر اس بار گاڑی والی باجی نے شیشہ ہی اوپر کردیا اور اسی دوران نرمین کی انگلی شیشے میں دب گئی وہ زور سے چلائی ہائے اللہ میری انگلی۔
چاروں طرف روشنیاں ہی روشنیاں افراتفری کا عالم خریداروں کا رش اور نرمین جو ابھی اپنے خیالوں سے نکلی تھی شوہر سے لڑجھگڑ کر ہزاروں روپے کی خریداری کرنے کے بعد بھی یہی سوچ رہی تھی کہ میرا نصیب ہی خراب ہے جو غریب آدمی سے شادی ہوگئی۔ کیا تھا جو تین ہزار والی جوتی پہن لیتی سال میں تو لیتی ہوں یہ جملہ جھوٹ تھا۔ مگر بیچارہ فہیم کیا کرتا۔
وہ موٹرسائیکل کو پکنچر لگوانے گیا تو نرمین کو محفوظ جگہ پر بیٹھا کر گیا اور جاتے جاتے اشارے سے ایک فقیرنی کی طرف اشارہ کر گیا۔ وہ دیکھو اللہ نے ہمیں پھر اچھے حال میں رکھا ہے۔
تب ہی نرمین نے اس فقیرینی کو دیکھا اور عادت کے مطابق وہ خوابوں میں گم ہوگئی تھی، وہ جب بھی کسی چیز یا واقعہ کو سوچتی اس میں گم ہوجاتی۔ اور اسی خواب میں اس نے خود کو بھیک مانگتے دیکھا لیکن جب حماد نے انگلی چبائی تو نرمین حقیقت میں لوٹ آئی۔
فہیم نے آنکھوں کے آگے ہاتھ ہلایا کہاں کھوگئیں؟ بیگم اب اتنا صدمہ بھی نہ لو سینڈل کا۔
نرمین نے سر ہلایا ! أَسْتَغْفِرُ اللّٰه۔
آپ بھی کیسی کیسی مثالیں دیتے ہیں اور میں کیوں صدمہ لینے لگی اللہ کا شکر ہے یہ سینڈل بھی بری نہیں ہے پندرہ سو بھی کم نہیں ہوتے۔
فہیم کی نظر نرمین کی انگلی پر پڑی، ارے یہ حماد نے کاٹا ہوگا دیکھو تو دو دانت بنا دیئے ہیں
شرارتی۔
نرمین نے مسکراتے ہوئے کہا شکر ہے اس نے کاٹ لیا ورنہ اور پتہ نہیں کتنی دیر بھیک مانگنی پڑتی۔
فہیم سمجھ گیا کہ نرمین پھر سے اپنے خوابوں میں کھو گئی ہوگی۔
نرمین نے مشکل سے سارے شاپنگ بیگ سنبھالے اور موٹر سائیکل پر بیٹھ گئی۔
فہیم نے پوچھا کہیں اب تمہیں وہ بڑی گاڑی میں بیٹھنے کا خیال تو نہیں آرہا۔
نرمین نے نہیں میں سر ہلایا نہیں نہیں شکر ہے اللہ کا سواری تو ہے ناں۔
اور اس طرح نرمین سمجھ گئی۔
عروج اچھا نہ زوال اچھا
جس حال میں خدا رکھے وہی حال اچھا۔