بس مجھے کچھ نہیں پتا ، اس عید میں مجھے ہر حال میں نئے کپڑے چاہئیں ۔ اس نے اسکول سے آ تے ہی بیگ ایک طرف پھینکا اور اعلان کردیا،اماں ہائیں، ہائی ہی کرتی رہ گئیں اور وہ دھاڑ سے کمرہ بند کرکے بغیر یونیفارم بدلے مونہہ سر لپیٹ کر پڑ گئی۔
اماں حیران و پریشان اس کے رویے پر غور کرتی رہیں اس سے پہلے اس معاملے میں مقدس نے اتنی شدت نہیں دکھائی تھی ۔اماں سوچنے لگیں یقیناً کچھ نہ کچھ ہوا ضرور ہے۔
پچھلے پانچ سال سے گھر کے حالات دگرگوں تھے ابا کو نوکری سے فارغ کردیا گیا تھا مالک کا کہنا تھا کہ ملکی حالات مہنگائی اور گیس کی عدم فراہمی کے باعث فیکٹری کو چلانا اور سینکڑوں ملازمیں کی تنخواہیں دینا مشکل ہوتا جارہا ہے اور فیکٹری خسارے میں جارہی ہے جس کی وجہ سے بہت سےملازمین کے ساتھ ابا کو بھی نوکری سے فارغ کردیا گیا۔
وہ دن ہے اور آج کا دن دو وقت کی روٹی کے بھی لالے پڑگئے، نوکری ڈھونڈنے کی بہتیری کوشش کی مگر ہرجگہ سے ایک ہی جواب ملتا کہ ہم تو پہلے سے اپنے ملازمین کو نوکری سے فارغ کر رہے ہیں نئی بھرتی کیسے کریں ؟ ابا نے کچھ دن نوکری کا دکھ منانے کے بعد اماں کے مشورے پر جو کچھ جمع پونجی تھی اس سے چنا چاٹ کا ٹھیلا لگانا شروع کردیا ۔ تو دو وقت کی روٹی کا آ سرا ہوگیا۔
دوسری طرف اماں نے گھر میں لفافے بنانے کا کام شروع کر دیا ایک ہزار لفافے پر سو روپے ملتے ۔ اس طرح گھر معیشت کی گاڑی کچھ آ گے بڑھنا شروع ہوئی ۔ مگر بے پناہ مہنگائی اور چھ افراد کی کفالت میں بڑی ہی مشکل سے مہینہ کٹتا ۔ اکثر تو مہینہ ختم ہونے سے ایک ہفتہ پہلے ہی راشن ختم ہوجاتا۔ اور پھر ادھار سے کام چلتا ۔
مہینے بھر میں ایک بار بڑی مشکل سے آدھا کلو گوشت اور ایک دن مرغی پکتی باقی پورا مہینہ سبزی دال پر ہی بہ مشکل گزارا ہوتا،ایسے میں نئے کپڑے اور دوسری عیاشیوں کا تو سوچا بھی نہیں جاسکتا ۔ جب بھی کوئی شادی بیاہ یا عید کا موقع آ تا اماں چپکے سے ایک سیکنڈ ہینڈ کپڑوں کی دکان پر جاتی۔ جس کا پتا ان کی ہڑوسن نے بتایا تھا ۔ وہاں سے چھانٹی کرکے نسبتاً بہتر اور صاف ستھرے کپڑے لاتیں اور جب بچے اسکول میں ہوتے تو اس کی کانٹ چھانٹ کرکے سی دیتیں استری کرکے اسے اس قابل بنادیتیں کہ وہ نئے جیسا لگتا۔
مگر مقدس ایک ذہین اور حساس بچی تھی اسے پتا تھا کہ اماں کس طرح سے اور کہاں سے یہ کپڑے لاتی ہیں اور کہیں نہ کہیں سے یہ ظاہر ہوجاتا تھا کہ کہ یہ سیکنڈ ہینڈ کپڑے ہیں ۔ مگر آج مقدس کو نہ جانے کیا ہوا تھا ایسا انداز اس نے کبھی نہیں اپنایا تھا اماں نے بھی اسے فوری چھیڑنا مناسب نہ سمجھا اور انتظار کرتی رہیں کہ کب کمرے کا دروازہ کھلتا ہے اور مقدس باہر آ تی ہے، تب تک غصہ بھی اتر چکا ہوگا تب پوچھوں گی کیا مسئلہ ہوا ۔ اماں دل ہی دل میں سوچے جارہی تھیں۔
بالآخر چاربجے دروازہ کھلا اور مقدس پھولے مونہہ اور سرخ آ نکھیں لیے باہر نکلی اور اماں جو افطار کی تیاری کر رہی تھیں کے پاس آ کے کھڑی ہوگئی۔ اماں نے اسے دیکھا اور مسکرادیں، کیا ہوا میری گڑیا کو آج اتنے غصے میں کیوں تھی میری گڑیا ؟ کسی نے کچھ کہا ہے ؟ اسکول میں کسی سے لڑائی ہوئی ہے؟
مگر مقدس کی طرف سے مسلسل خاموشی ۔ اپنے سوالوں کے جواب نہ پاکر اماں نے جو اس کی طرف دیکھا تو انکھیں موٹے موٹے آنسوؤں سے بھری ہوئی تھیں اور چہرہ ضبط کی شدت سے سرخ ہورہا تھا ۔ اماں کا تو دل گویا کسی نے مٹھی میں لے لیا ۔ اپنے یاتھ پونچھتی مقدس کو ساتھ لگائے کچن سے نکل کر برآمدے میں آ ئیں مقدس کو چارپائی پہ بٹھایا اور اسکے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر ماتھے کو چوم لیا اور وہ جو آنسو بہت دیر سے ضبط کیے ہوئی تھی بہہ نکلے ۔
اب بتاؤ ! میری گڑیا کے ساتھ ایسا کیا ہوا ہے کہ آ نسو نہیں تھم رہے ہیں اور نہ الفاظ ہی مونہہ سے نکل رہے ہیں ۔ تیرہ سالہ مقدس کو اماں نے اپنی مہربان بانہوں میں بھر لیا اور اب تو مانو ضبط کے بند ہی ٹوٹ گئے ۔
اماں ! ہم کیوں غریب ہیں ؟ غریب ہونا جرم ہے کیا ؟ ابا چاٹ کا ٹھیلا لگاتے ہیں کیا یہ غلط ہے ۔ لڑکیاں اسکول میں میرا مذاق اڑاتی ہیں مجھ پر ہنستی ہیں ۔ آ ج نمرہ نے مجھے کہا کہ تم تو عید پہ بھی پرانے کپڑے پہنتی ہو ۔ تمھارے ابا چنا چاٹ کا ٹھیلا لگاتے ہیں اور تمھارے گھر تو نہ ٹی وی ہے نہ کسی کے پاس موبائل نہ کمپیوٹر اور کیا کبھی تم نے پزا اور زنگر برگر کھایا ہے ؟ اس کی تو اوقات ہی نہیں تمھاری ۔۔۔ بس مجھے اس کی باتیں اچھی نہیں لگیں ۔ اماں وہ کوئی موقع نہیں چھوڑتی مجھے نیچا دکھانے کا اور دوسری لڑکیاں بھی اس کے ساتھ مل جاتی ہیں اور میرا مذاق اڑاتی ہیں میرے یونیفارم بیگ اور جوتوں کو دیکھ دیکھ کر ہنستی ہیں وہ روز ایسا کرتی ہیں مگر آج مجھ سے برداشت نہ ہوا۔ اس نے سسکتے ہوئے تمام ماجرا آ ہستہ آہستہ بالآخر کہہ سنایا۔
اماں کا تو دل گویا کسی نے مٹھی میں بھینچ لیا ۔ یا اللہ میری بچی کیسے برداشت کرتی رہی اور مجھے خبر ہی نہ ہوسکی ۔ کچھ دن سے مقدس خاموش خاموش سی رہنے لگی تھی اماں نے اسے اس کی سنجیدگی پر محمول کیا کہ اب وہ سمجھ دار ہوتی جارہی ہے ۔ مگر یہاں تو یہ معاملہ نکلا ۔بیٹا ان کی غلط تربیت ہوئی ہے جو وہ ایسا کرتی ہیں، اللہ انہیں ہدایت دے، اماں یہ سب سن کر سوچ میں پڑگئیں۔
بہت دن سے پیسے جوڑ رہی تھیں اسکے یونیفارم بیگ اور جوتوں کے لیے مگر ہر بار کوئی نہ کوئی ایسی ضرورت نکل آ تی کہ وہ پیسے خرچ ہوجاتے ۔ باقی تین اس سے چھوٹی بہنیں بھی تھیں ان کی اور گھر کی چھوٹی موٹی ضروریات پر خرچ ہوجاتے۔
اماں نے مقدس کو تسلی دی اور کہا اس بار تم سب کے نئے کپڑے بنیں گے اور یونیفارم جوتے اور بیگ بھی آجائیں گے ۔فکر نہ کر میری بچی ۔
مقدس بہت حساس بچی تھی کبھی اپنی کسی خواہش کا کھل کے اظہار نہ کرتی گھر کے حالات کو سمجھتی تھی ۔ مگر تھی تو بچی ہی اس کی آ نکھیں بھی اچھے کپڑے ، کھانے پینے اور گھومنے پھرنے کے خواب بنتی تھیں وہ اپنے آپ کو خوب پھولی پھولی جالی دار سرخ رنگ کی فراک میں گول گول گھومتی ہوئی سنڈریلا کے روپ میں دیکھا کرتی ۔ خیالوں میں مزے مزے کے کھانے کھایا کرتی اور ابا کا ہاتھ پکڑ کے پارکوں میں الیکٹرک والے جھولوں میں اپنے آ پ کو جھولتا دیکھتی اور نہ جانے خیالوں میں کہاں سے کہاں نکل جاتی ۔ جہاں رنگ تھے روشنی تھی پھول تھے خوشبو تھی تتلیاں تھیں اور خوب ساری مزے مزے کی چیزیں تھیں ۔
ایک خیالی دنیا تھی اسکی، جس میں وہ دن میں نہ جانے کتنی مرتبہ قدم رکھتی ۔ مگر جب خیال ٹوٹتا تو حقیقت بڑی بھیانک ہوتی ۔
اماں نے مقدس سے کہا بس آج شام کو ہم بازار چلیں گے اور تم چاروں اپنی مرضی سے شاپنگ کرنا ۔ اماں! کیا واقعی ہم شاپنگ کرنے جائیں گے سچ بتائیں ۔ مقدس کو یقین ہی نہیں آ رہا تھا ۔ باقی تینوں چھوٹی بہنیں بھی خوش تھیں اور مقدس کے تو پیر گویا زمین پر ہی نہ ٹک رہے تھے ۔
مگر اماں پیسے کہاں سے آ ئیں گے ؟ اس کی تم فکر نہ کرو میری گڑیا بس شاپنگ کی تیاری کرو اور جو جو لینا ہے اس کی لسٹ بنالو ۔ پھر بعد میں نہ کہنا کہ یہ رہ گیا وہ رہ گیا اماں نے مسکراتے ہوئے چاروں کی طرف دیکھا جن کے چہرے خوشی سے کھلے ہوئے تھے یہ سن کر چاروں نے نعرہ لگایا اماں از گریٹ۔
اب اسے بس افطار کا انتظار تھا جو آج تو کچھ زیادہ ہی طویل ہوگیا تھا، اللہ اللہ کرکے افطار کا ٹائم ہوا سب نے مل کے دعا کی اور روزہ افطار کیا ۔ آج تو چارو بہنوں کی خوشی دیدنی تھی ۔ جلدی جلدی نماز ہڑھی اور اماں نے صدا لگائی چاروں تیار ہوجاو۔ جلدی جائیں گے تو بازار میں رش نہیں ہوگا آ رام سےخریداری ہوجائے گی ۔ سب کو لے کے اماں قریبی بازار کی طرف روانہ ہوئیں۔۔ ابھی رش قدرے کم تھا ۔ آ رام سے ڈیڑھ گھنٹے میں شاپنگ مکمل ہوگئ اور سب لدے پھندے گھر آ گئے ۔ چاروں کے چہرے خوشی سے دمک رہے تھے اور بس نہیں چل رہا تھا کہ کل ہی عید ہوجائے اور یہ سب پہن لیں مگر ابھی عید میں دس دن باقی تھے اور صبر کرنا مشکل۔
ارے نیک بخت یہ تم نے کیا کیا؟ سارے پیسے جو ٹیسٹوں کے لیے جمع کیے تھے شاپنگ میں خرچ کردیے ۔ جب بچیاں سوگئیں تب ابا نے اماں سے سوال کیا ۔ بڑی مشکلوں سے یہ بیس ہزار جمع کیے تھے ۔ تمھاری زندگی سے زیادہ قیمتی نہیں ہیں ان کی خواہشات ۔ اب کیسے دوبارہ اتنے پیسے جمع ہوں گے ۔ اماں کو ڈاکٹر نے جگر کا کینسر تشخیص کیا تھا ابتدائی رپورٹس میں، ابھی ابتداء تھی اور مزید ٹیسٹ لکھ کر دیے تھے جو تقریبا بیس سے پچیس ہزار کے ہوتے ۔
کوئی بات نہیں مقدس کے ابا ۔ قسمت میں ہوگا تو پھر جمع کرلیں گے ۔ میری بیٹیوں کی آ نکھ میں آ نسو ہوں اور لوگوں کی باتوں سے ان کے دل دکھتے ہوں یہ میں کیسے برداشت کروں؟ یہ کہتے ان کی آواز بھرا گئی اور آنکھوں پر بازو رکھ کر کروٹ بدل کے سونے کی کوشش کرنے لگیں مگر نیند آ نکھوں سے کوسوں دور تھی۔