سنہ 1961 میں جب سے سوویت خلا باز یوری گاگرین خلا میں پہنچے ہیں، انسانی خلائی تحقیق کا سلسلہ کبھی تھما نہیں ہے بلکہ اس میں ہمیشہ جدت آتی گئی ہے۔1957 میں لانچ کیے گئے پہلے سیٹلائٹ سے شروع ہونے والی خلائی تحقیق میں 20 ویں صدی میں مزید تیزی آئی اور سوویت یونین اور امریکہ کے مابین خلائی دوڑ نے بے مثال سائنسی پیش رفت کو نمایاں طور پر آگے بڑھایا۔ اس کے بعد سے سیٹلائٹ لانچنگ، انسان بردار خلائی پروازیں اور گہری خلائی تحقیق اہم خلائی سرگرمیاں ہیں، جن میں خلاباز چاند کا سفر کرتے ہیں اور نظام شمسی کی کھوج کرتے ہیں۔
حالیہ برسوں میں، دنیا بھر کے ممالک چاند پر اترنے اور مزید گہری خلا میں جانے کی کوشش کر رہے ہیں. تاہم خلائی تحقیق مہنگی اور تکنیکی طور پر مشکل ہے اور کوئی بھی ملک اکیلے یہ کام نہیں کر سکتا جس کی وجہ سے نئی شراکتیں قائم ہو رہی ہیں۔امریکی خلائی ادارے ناسا نے ملک سے باہر اپنے تعاون کو وسعت دی ہے اور اپنے آرٹیمس مشنز کے لیے جاپانی اور یورپی سپلائرز کے ساتھ تعاون کیا ہے۔اسی طرح تجارتی خلائی کمپنیوں نے بھی خلائی تحقیق میں حصہ لیا ہے۔ ایلون مسک کی اسپیس ایکس اس ماہ کے آخر میں اپنا اسٹار شپ سپر ہیوی راکٹ لانچ کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ کمپنی کے مطابق یہ راکٹ، خلابازوں اور سامان کو زمین کے مدار، چاند، مریخ اور اس سے آگے لے جانے کے لیے مکمل طور پر قابل استعمال نقل و حمل کا نظام ہے۔
چین کا شمار بھی انہی ممالک میں کیا جاتا ہے جہاں خلا کی کھوج اور تحقیق کو نمایاں اہمیت حاصل ہے اور اس حوالے سے نمایاں پیش رفت ہوئی ہے۔چین خلائی سائنس ایپلی کیشن منصوبوں پر اقوام متحدہ کے دفتر برائے بیرونی خلائی امور اور یورپی خلائی ایجنسی کے ساتھ تعاون کر رہا ہے اور رواں سال چین کے خلائی اسٹیشن میں داخل ہونے کے لیے متعلقہ پے لوڈ لانچ کیے جائیں گے۔چین کا مقصد 2028 تک چاند کے تحقیقی اسٹیشن بیس کے لئے ایک بنیادی ماڈل قائم کرنا اور اس کی بین الاقوامی ساکھ کو توسیع دینا ہے۔یہ امر قابل زکر ہے کہ چین کے جی چھوان سیٹلائٹ لانچ سینٹر کے لانچ پیڈ نے اپنا 100 واں خلائی مشن مکمل کر لیا ہے۔اس حوالے سے سولہ اپریل کی صبح ایک نیا موسمیاتی سیٹلائٹ، لانگ مارچ۔4 بی راکٹ کے ذریعے خلا میں بھیجا گیا ہے۔ یہ سیٹلائٹ موسم کی پیش گوئی، آفات کی روک تھام اور تخفیف،موسمیاتی تبدیلی کے ردعمل اور ماحولیاتی تحفظ کے لئے خدمات فراہم کرے گا۔
جی چھوان سیٹلائٹ لانچ سینٹر چین کا پہلا لانچ پیڈ ہے جس میں مضبوط کنکریٹ کو مرکزی ڈھانچے کے طور پر شامل کیا گیا تھا، پیڈ کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد اسے 2003 میں پہلی مرتبہ استعمال میں لایا گیا تھا۔گزشتہ 20 سالوں کے دوران اس پیڈ سے پہلے 50 لانچ مشنز مکمل کرنے میں 14 سال لگے جبکہ دوسرے 50 مشنز صرف 6 سالوں میں لانچ کیے گئے ہیں، جس نے چین کے خلائی پروگرام کی تاریخ میں ایک نیا ریکارڈ قائم کیا۔متعدد اقسام کے راکٹوں کے ہمراہ لانچ مشن سر انجام دینے کے لئے، اس مرکز نے لانچنگ کے لئے تیاری کے عمل کو مسلسل ہموار اور بہتر بنایا ہے، اور سنگل لانچ مشن کی تیاری کی مدت کو 20 سال پہلے کے 30 دنوں کی نسبت کم کرتے ہوئے 14 دن کردیا گیا ہے۔اس دوران مسلسل سائنسی تحقیق اور جدت طرازی کو فروغ دیا گیا ہے۔ سائنسی تحقیق اور جدت طرازی میں 64 کامیابیاں اور 99 پیٹنٹس حاصل کیے گئے ہیں. 20 سال کی مسلسل کوششوں کی بدولت ٹیسٹنگ اور لانچنگ کے عمل میں تمام 100 مشنز کی کامیابی کو یقینی بنایا گیا ہے۔
دوسری جانب چین نے سیٹلائٹ ایپلی کیشن سسٹم میں بھی بڑی پیش رفت دکھائی ہے اور اس وقت آٹھ سیٹلائٹ مختلف ایپلی کیشنز کے لیے مدار میں موجود ہیں۔1988 سے اب تک چین نے مجموعی طور پر فینگ یون سیریز کے20 موسمیاتی سیٹلائٹس کامیابی کے ساتھ لانچ کیے ہیں، جس میں اس وقت مدار میں آٹھ سیٹلائٹ موجود ہیں، جو نہ صرف چین کے لیے خدمت سرانجام دے رہے ہیں بلکہ دنیا بھر کے 126 ممالک اور خطوں کے لیے ڈیٹا مصنوعات اور خدمات بھی فراہم کرتے ہیں۔
حالیہ برسوں میں، چین نے اپنے سیٹلائٹ نیٹ ورک کی ترقی میں مستقل پیش رفت کی ہے، جو زیادہ صلاحیت کے ساتھ مزید علاقوں میں سیٹلائٹ مواصلاتی نیٹ ورک کے اطلاق کو تیز کررہا ہے۔ چین اس لحاظ سے بھی منفرد ہے کہ اُس نے خلائی تحقیق اور ترقی میں پاکستان سمیت ایسے ترقی پزیر ممالک کو بھی شامل ہے جن کے پاس وسائل محدود ہیں، یہ بنی نوع انسان کے ہم نصیب معاشرے کی تعمیر میں چین کی ایک نمایاں شراکت اور ٹھوس کردار ہے۔