بحرانوں کا خاتمہ ناگزیر

پاکستان اور اہل پاکستان ان دنوں سنجیدہ سیاسی بحران ، بدترین معاشی بحران اور تشویشناک جوڈیشل بحران کا شکار ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی جانب سے ایک دوسرے پر الزامات زوروں پر ہیں، سیاست دان، اعلیٰ عدالتیں، ملٹری اور سول اسٹیبلشمنٹ سب موجودہ صورتحال کا ذمہ دار ایک دوسرے کو ٹھہرا رہے ہیں، اور پاکستان کا ہر طبقہ موجودہ صورتحال پر پریشان ہے۔ اس وقت ہمارے سامنے جتنے بڑے چیلنج ہیں ہماری سیاسی قیادت کی انائیں بھی اتنی بڑی ہیں کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھنے کو تیار نہیں۔

سب سے بڑی بدنصیبی یہ ہے کہ اداروں میں اختلافات بڑھ رہے ہیں، ملک آئینی بحران سے دوچار ہوتا دکھائی دے رہاہے۔ اس بات سے قطعہ نظر کہ موجودہ صورتحال کا ذمہ دارکون ہے، ملکی ترقی کیلئے فراخدلی اور خندہ پیشانی کا مظا ہرہ کرتے ہوئے ارباب اختیار کو مل بیٹھ کر بحرانوں کے خاتمے کی راہ نکالنا ہوگی اور درپیش چیلنجز سے نبٹنا ہوگا۔ یوں تو ہماری سیاسی تاریخ کبھی خوشگوار نہیں رہی لیکن سیاست کو جس طرح اب نفرت اور دشمنی میں بدل دیا گیاہے اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔

ماضی میں سیاستدان بدترین سیاسی مخالفت اور مشکل حالات میں بھی ایک دوسرے سے ملتے رہے ، بات چیت کا دروازہ کھلا رکھا گیا ۔ لیکن اب پہلے عمران خان نے اپنی حکومت کے دوران ایک مرتبہ بھی اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ بیٹھنا اور ان سے ہاتھ ملانا مناسب نہ سمجھا بلکہ پاکستان اور ریاست کے اہم مسائل پر بھی اگر کبھی حکومت اور اپوزیشن کا مل بیٹھنا لازم ہوتا تو عمران خان ملک کے وزیراعظم ہونے کے باوجود ایسے اجلاسوں سے غائب رہتے ۔ پی ڈی ایم کی جماعتیں ماضی میں عمران خان کے اس رویہ پر تنقید کرتی رہیں اور یہ کہتی رہیں کہ سیاست میں بات چیت کا دروازہ کبھی بند نہیں کیا جاتا، لیکن اپنی حکومت کے دوران موجودہ حکمراں اتحاد نے بھی عمران خان کے ساتھ بات چیت میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی بلکہ سیاست میں نفرت اور دشمنی کو مزید ہوا دی گئی۔

آج پاکستان اور اس کی معیشت کو تباہ حالی کا سامنا ہے لیکن کوئی اس کو بچانے کیلئے تیار نہیں۔ ہمارے ملک کا صنعتی شعبہ جو زرمبادلہ کے حصول اور مواقع روزگار بڑھانے کا بڑا ذریعہ ہے ، مسلسل تنزلی کا شکار ہے جس کے باعث بیروزگاری اور غربت میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ ٹیکسٹائل کا شعبہ کپاس کی امپورٹ سمیت کئی ایسی الجھنوں کا شکار ہے جن سے نکلنے کے لئے تخلیقی، فراخدلانہ اور انقلابی اقدامات کی ضرورت ہے ۔ موٹر سائیکلوں کی تیاری، سیمنٹ، فرٹیلائزر اور انرجی سمیت کئی شعبے بقا کی جنگ سے دوچار محسوس ہو رہے ہیں۔ گردشی قرضہ 550 ارب روپ تک پہنچ چکا ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی آئوٹ لک رپورٹ بھی کئی چیلنجوں کی نشاندہی کرتی محسوس ہو رہی ہے ۔ ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک نے پاکستان کی شرح ترقی 0.6 فیصد اور 0.4 تک رہنے کی پیش گوئی کی ہے ۔ زمینی حقائق بتارہے ہیں کہ ملک دیوالیہ ہونے کے قریب ہے، بس چند مہربان دوستوں کیوجہ سے ابھی اس کا باضابطہ اعلان نہیں ہوا، لیکن ہمارے وہ دوست بھی کب تک ہمارا ساتھ دیں گے ۔مالی مشکلات کی وجہ سے ایل سیز نہیں کھل رہیں، عالمی تجارت معطل ہے ۔

ایک طرف معیشت کے حوالے سے وطن عزیز کو سنگین مسائل کا سامنا ہے دوسری جانب سیاسی عدم برداشت سے پیدا ہونے والے خدشات ہیں۔ قانون نافذ کرنے اورانصاف فراہم کرنے والوں پر عوام کا اعتماد متزلزل ہو رہا ہے ۔ دوسری جانب 11 جماعتی حکومتی اتحاد اس وقت ہر قسم کی سیاسی مصلحتوں اور دستوری تقاضوں کو پس پشت ڈال کر محض طاقت کے زور پر اپنے مخالفین کی آواز دبانے میں مصروف دکھائی دیتاہے ۔

آج پاکستان کا ہر ذی شعور شخص اس بات سے خوفزدہ ہے کہ موجودہ حالات کا انجام کیا ہوگا۔ ان حالات میں جبکہ ملک کو معاشی اور سیاسی عدم استحکام کا سامنا ہے ،عدالت اور حکومت کے درمیان لڑائی سے ملک میں آئینی بحران جنم لے رہا ہے، اس سے پہلے سے جاری بحران مزید سنگین ہوں گے اور ملک میں انتشار و تقسیم کی صورت پیدا ہوگی۔ آج ملک میں ایسی سیاسی فضا بنانے کی ضرورت ہے جس میں مختلف حلقے اپنے نظریاتی اختلافات کے باوجود ملکی مفاد کے لئے یکجا ہو جائیں اور آگے بڑھنے کے راستے مل جل کر تلاش کریں۔

آج ملک جن مسائل سے دوچار ہے اس کے پیش نظر معاملات بگڑنے نہ پائیں ، بلکہ سیاسی جماعتیں اور عدالت کے غیر جانب دار ججز بھی آگے بڑھیں ملک کو بحران سے نکالنے کی کوشش کریں تاکہ ایسی صورتحال نہ پیدا ہوجس سے قوم میں انتشار اور افتراق کو ہوا ملے ۔ اس وقت ہمیں ملک اور آئین کو بچانے کیلئے دھمکیوں کی نہیں افہام و تفہیم اور تدبر کی ضرورت ہے۔ ابھی وقت ہے کہ آئین پر عمل کرتے ہوئے مل بیٹھ کر ایک دن قومی انتخابات کا اعلان کیا جائے، عوام کو حق دیا جائے وہ اپنی مرضی کی جماعت کو ووٹ دیں۔ عوامی مینڈیٹ کا احترام کرتے ہوئے عوام کی منتخب حکومت کو اقتدار و اختیار دیا جائے، تاکہ ملک کو بحرانوں کی دلدل سے نکالا جاسکے ۔