رمضان المبارک کی رحمت و برکت والی فضا میں جب مسجد اقصی سے آنے والی ہوائیں شامل ہوتی ہیں تو کچھ سسکیاں سنائی دیتی ہیں۔
ماتمی سسکیاں، 15 سالہ محمد بلحان، 25 سالہ امیر ابو خدیجہ، 26 سالہ محمد الصیبی، 23 سالہ محمد بارادیہ، 43 سالہ محمد ابو بکر ، 21 سالہ محمد سعید، 45 سالہ یوسف ابو جابر، 20 سالہ عاید سلیم اور نجانے کتنے ہی جنت کے پھول اور امت کے جوان، فلسطین کی مائیں لعل و جواہر سے بڑھ کر قیمتی بیٹوں کی میتیں صحن میں رکھے پتھرائی آنکھوں سے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی راہ دیکھ رہی ہیں۔
القدس یونین کے مطابق 2023 کے اوائل سے اب تک اسرائیلی فوج کے بھیڑیے 96 فلسطینیوں کا خون پی چکے ہیں، جن میں 17 بچے اور ایک معمر خاتون بھی شامل ہیں۔
اسرائیل کی وحشیانہ اور نسل پرستانہ حکومت کی زیر سرپرستی گاہے بگاہے اسکولوں، اسپتالوں، پناہ گزینوں کے کیمپوں، یتیم خانوں، اقوام متحدہ کے کھانے پینے کے مراکز، واٹر ورکس، پاور پلانٹس، ایمبولینسوں، ساحل سمندر پر کھیلنے والے بچوں پر بمباری کی جاتی ہے۔
اسکول جانے والے بچوں تک کو گولی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ بچوں کو اغوا کرنے اور ان کے اعضاء کاٹنا بھی معمول کا حصہ ہیں۔ قیدیوں کو رہا کرنے سے پہلے بیماری کے جراثیم کے انجیکشن لگانا بھی ان کی پالیسی کا حصہ ہے اور اس سب پر نہایت ڈھٹائی سے یہ اپنے بے دفاع متاثرین کو دنیا کے سامنے “دہشت گرد” کہتے ہیں۔
سارا سال جاری رہنے والی یہ اسرائیلی دہشت گردی رمضان کے بابرکات مہینے میں کچھ اور بھی شدت اختیار کیے ہوئے ہے۔ گویا آج اپنی تیسری مقدس ترین مسجد میں مسلمان سر پر کفن باندھ کر نماز اور عبادت کے لیے داخل ہوتے ہیں جبکہ محبوب و مسجود الانبیا مسجد الاقصی اور بالخصوص اس کی دیوار براق پر یہود کی سرگرمیاں طمطراق سے جاری و ساری ہیں۔
دیوار براق مسجد اقصی کی وہ دیوار ہے جہاں شب معراج کو امام الانبیاء محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جنت سے آئی ہوئی اپنی سواری براق کو باندھا تھا۔ ستم تو یہ ہے کہ اس دیوار کو آج دیوار گریہ کا نام دے کر یہود اس پر اپنا ناجائز تسلط قائم کیے ہیں اور بیشتر مسلمان بھی اسے دیوار گریہ ہی کے نام سے پکارتے ہیں جبکہ یہود کی جانب سے یہ محض ایک دعوی ہے جس کی بنیاد جھوٹ کے سوا کچھ نہیں، بلکہ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ برطانوی انتداب کے دور میں جب یہودیوں نے اس دیوار کی ملکیت کا دعویٰ کیا تھا، اور اس کے نتیجہ میں مسلمانوں نے ایک تحریک “ثورۃ البراق” کے نام سے شروع کی تھی۔
تو یہ مسئلہ لیگ آف نیشنز میں پیش ہوا تھا، اور یہودی چونکہ اپنے اس دعوے کا کوئی دستاویزی ثبوت پیش نہیں کر سکے تھے اس لئے مجلس اقوام نے دسمبر ۱۹۳۰ء میں فیصلہ سنایا تھا کہ یہ دیوار صرف مسلمانوں کی ملکیت اور مسجد اقصیٰ کا حصہ ہے۔
ان حالات میں فلسطین کے مظلوم مسلمان اور مسجد الاقصی کے خطیب مسلسل اس مقصد و بابرکات مسجد کی حفاظت کے لیے امت کو پکار رہے ہیں۔ عسکری و سیاسی مدد تو یقیناً حکومتیں ہی کر سکتی ہیں لیکن ایک عام مسلمان بھی مسجد اقصٰی کے تحفظ میں اپنا کردار ادا کر سکتا ہے۔
مسجد اقصی کی فضیلت و اہمیت کا شعور حاصل کرنا، اس شعور کو دوسروں بالخصوص بچوں کو دینی ورثہ سمجھتے ہوئے منتقل کرنا، مساجد میں قنوت نازلہ کا اہتمام، ہر طر ح کی اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ، فلسطینی مصنوعات کی خریداری اور مستند اداروں کے ذریعے اپنے عطیات مسجد اقصی کے دفاع کے لیے بجھوا کر ہم اس اہم مسئلے کے حل میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
بصورت دیگر ہماری خاموشی ہمیں مسجد اقصی کے محافظوں َسے نکال کر اس کے دشمن کی صف میں لا کھڑا کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں امت کے مسائل کو سمجھنے اور ان کے حل میں اپنا کردار ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین