گزرتے وقت کے ساتھ چین میں نئی ٹیکنالوجیز پر سرمایہ کاری میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی نئی جہتیں آج ملک میں تمام شعبہ ہائے زندگی کا احاطہ کیے ہوئے ہیں۔ اس وقت ملک میں کمپیوٹنگ پاور کو صنعتی انٹرنیٹ، اسمارٹ میڈیکل کیئر، فن ٹیک، فاصلاتی تعلیم اور ایرو اسپیس جیسے شعبوں میں وسیع پیمانے پر لاگو کیا گیا ہے اور اسے مزید وسعت دی جا رہی ہے۔
اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے ابھی حال ہی میں چین نے فرنٹیئر سائنس ٹیک تحقیق میں مصنوعی ذہانت (اے آئی) کے استعمال کو فروغ دینے کے لئے باضابطہ طور پر ایک منصوبے کا آغاز کیا ہے، جس میں بنیادی مضامین میں کلیدی مسائل اور اہم سائنس ٹیک شعبوں جیسے ادویات کی ترقی، جین ریسرچ اور حیاتیات کی افزائش میں تحقیق کی ضروریات پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔
اپنی نوعیت کے اس منفرد منصوبے کی اہمیت کے پیش نظر اسے ”اے آئی فار سائنس” کا نام دیا گیا ہے۔اس منصوبے کی بدولت مصنوعی ذہانت اور سائنس ٹیکنالوجی کی تحقیق کے گہرے انضمام کو فروغ دینے کے لئے نظام کی ترتیب اور مجموعی رہنمائی کو مزید تقویت ملے گی، تاکہ وسائل کے کھلے پن اور ہم آہنگی کو فروغ دیا جاسکے اور جدت طرازی کی صلاحیتوں میں اضافہ کیا جاسکے۔
اس منصوبے کے تحت چینی کے تحقیقی ادارے بڑے سائنسی مسائل کے لیے مصنوعی ذہانت کے ماڈلز اور الگورتھم کی جدت طرازی کو فروغ دیں گے، عام تحقیقی شعبوں کے لیے متعدد پلیٹ فارم تیار کریں گے اور مصنوعی ذہانت کی پبلک کمپیوٹنگ پاور کی نئی نسل کے لیے قومی اوپن انوویشن پلیٹ فارم کی تعمیر میں تیزی لایں گے۔
اس پیش رفت نے بین الشعبہ جاتی تحقیق اور ترقی کی ٹیموں کو اکٹھا کرنے، جدت طرازی کنسورشیم کے قیام کو فروغ دینے اور کینسر کے علاج اور موسمیاتی بحران سمیت مشترکہ انسانی سائنسی چیلنجوں کے حل پیش کرنے کے لئے بین الاقوامی تعلیمی تبادلے کے پلیٹ فارم تیار کرنے کا بھی عہد کیا ہے۔
دیکھا جائے تو مصنوعی ذہانت کے شعبے میں چین کی ترقی کا نمایاں پہلو سرمایہ کاری میں زبردست اضافہ ہے۔گلوبل مارکیٹ ریسرچ فرم انٹرنیشنل ڈیٹا کارپوریشن (آئی ڈی سی) کی ایک حالیہ رپورٹ میں چین کی مصنوعی ذہانت کی صنعت میں اخراجات 2023 میں 14.75 بلین ڈالر تک پہنچنے کی پیش گوئی کی گئی ہے، جو دنیا کی مجموعی مالیت کا تقریباً 10 فیصد ہے۔
آئی ڈی سی نے 2021تا2026 کی مدت کے دوران چین کی مصنوعی ذہانت مارکیٹ کی کمپاؤنڈ سالانہ ترقی کی شرح 20 فیصد سے متجاوز رہنے کی پیش گوئی کرتے ہوئے کہا کہ ملک کی مصنوعی ذہانت کی مارکیٹ ویلیو 2026 میں 26.44 ارب ڈالر تک پہنچنے کی توقع ہے۔چین کی اے آئی مارکیٹ کی طویل مدتی وسعت کے بارے میں بھرپورامید ظاہر کرتے ہوئے، آئی ڈی سی نے ایپلی کیشن منظرنامے کی بہتر لینڈنگ کو فروغ دینے میں جدت طرازی اور مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی کو اپ گریڈ کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔
اس میں کہا گیا ہے کہ ڈیجیٹل تبدیلی کے لئے انٹرپرائزز کا جوش و خروش چینی مارکیٹ میں متنوع طلب کو بھی فروغ دے گا۔ آئی ڈی سی کی رپورٹ کے مطابق 2026 میں چین کی بگ ڈیٹا مارکیٹ دنیا کی کل مارکیٹ کا تقریباً 8 فیصد ہونے کی توقع ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک کی اقتصادی ترقی اور ڈیجیٹل تبدیلی کی وجہ سے چین کی بگ ڈیٹا مارکیٹ میں 2022 میں انفارمیشن ٹیکنالوجی میں 17 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔یہ بھی کہا گیا ہے کہ حکومتوں، بینکاری، پیشہ ورانہ خدمات اور ٹیلی مواصلات نے بگ ڈیٹا مارکیٹ میں کل اخراجات کا 60 فیصد سے زیادہ حصہ لیا ہے۔
ٹیکنالوجی کے میدان میں چین کی نمایاں پیش قدمی کا ایک واضح مظہر یہ بھی ہے کہ چین اس وقت اپنی کمپیوٹنگ طاقت کے پیمانے کے لحاظ سے دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔2022 کے اختتام تک، ملک کی
کمپیوٹنگ طاقت کا مجموعی پیمانہ 180 ای فلوپس تک پہنچ گیا، جس کی سالانہ ترقی کی شرح تقریباً 30 فیصد تھی، اور اسٹوریج کی صلاحیت کا مجموعی پیمانہ ایک ٹریلین گیگا بائٹس سے تجاوز کر گیا ہے۔بنیادی کمپیوٹنگ پاور انڈسٹری کا پیمانہ 1.8 ٹریلین یوآن (تقریباً 0.26 ٹریلین ڈالر) تک پہنچ گیا ہے۔ چائنا اکیڈمی آف انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کا اندازہ ہے کہ کمپیوٹنگ پاور میں سرمایہ کاری کرنے والا ہر یوآن چین کی جی ڈی پی میں 3 سے 4 یوآن کی ترقی کو فروغ دے گا۔ساتھ ساتھ یہ توقع بھی ہے کہ ٹیکنالوجی کے میدان میں چین کی سرمایہ کاری سے جہاں چینی شہریوں کے لیے نئے ثمرات لائے جائیں گے وہاں دنیا بالخصوص چین کے ہمسایہ ممالک کے عوام بھی مستفید ہوں گے کیونکہ چین اشتراکی ترقی کا داعی ہے اور بنی نوع انسان کے ہم نصیب سماج کی تعمیر کا حامی ہے۔