زندگی میں ہمیں بعض اوقات یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے ساتھ کوئی برا سلوک ہو رہا ہے، ہمیں وہ انعام اور اعزاز نہیں مل رہا، جس کے ہم حقدار ہیں، ہمیں دھکے دیئے جارہے ہیں، لوگ ہمیں پاؤں تلے روند ڈالا رہے ہیں۔ ہم محض بے کار اور کوئی قدر و قیمت نہیں رکھتے۔ ایک مقرر نے ہال میں تقریر کرنے سے پہلے اپنے پرس سے ایک ہزار کا نوٹ نکالا، اس نے نوٹ کو لہراتے ہوئے اپنے سامعین سے سوال کیا ، یہ کیا ہے؟ ایک ہزار کا نوٹ۔ ہال سے کئی آوازیں ابھریں، اس نے سوال کیا کہ کیا اس کی کوئی قدر و قیمت ہے۔ سب نے جواب دیا ۔ ہاں، بازار میں اس سے ہزار روپے مالیت کی چیزیں خریدی جاسکتی ہیں۔ مقرر نے اس ہزار کے نوٹ کو ہاتھوں سے مل دیا، مڑ تڑا نوٹ اس کے ہاتھ میں تھا، اور وہ پوچھ رہا تھا کہ کیا اب بھی اس کی کوئی قیمت ہے۔ سب نے جواب دیا ۔
ہاں اس کی قیمت ایک ہزار روپے ہی ہے، مقرر نے وہ مڑا تڑا نوٹ زمین پر گرا دیا اور اس پر اپنے جوتے سے کئی ضرب لگائیں ، اور پھر پوچھا کیا اب بھی اس کی کوئی قدر و قیمت ہے۔ لوگوں نے جواب دیا ہاں یہ ہزار روپے کا نوٹ ہے، اور اس کی وہی قدر و قیمت ہے۔ اب مقرر نے کہنا شروع کیاَ” دوستو میں نے اس نوٹ کو حلیہ بگاڑ دیا، اسے موڑ توڑ کر رکھ دیا، اسے مسل دیا، اس پر جوتے سے کچوکے لگا دیئے، لیکن یہ پھر بھی اپنی قدر و قیمت رکھتا ہے، اس بدسلوکی نے اس کی قدر و قیمت کو نہیں گھٹایا، وہ تو وہی رہی، جو پہلے تھی، اس نے ایک گہری سانس لی، اور کہا زندگی میں ہمیں یہی لگتا ہے کہ ہمارے ساتھ جو سلوک ہورہا ہے، اس میں ہماری کوئی قدر و قیمت نہیں ہے۔ لیکن آپ کی جو قیمت ہے، اسے کوئی نہیں چھین سکتا۔
آج پی ڈی ایم کی حکومت کو پورا ایک سال ہوگیا ہے، جو پی ٹی آئی کی حکومت کو مورد الزام ٹہراتے تھے،، ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگاتے تھے،اب وہ ووٹ کے ڈبوں سے خوفزدہ ہیں، انھوں نے ایک سال میں جو تباہی پھیری ہے، معیشت کا بیڑا غرق کیا ہے، عوام کو بھوک،مہنگائی، گیس بجلی سے محرومی کا جو تحفہ دیا ہے، آٹے پر لائین لگوائی ہیں، پیٹرول کی کمائی سے اللےتللے کر رہے ہیں، تاریخ کی سب سے بڑی کابینہ وزیروں مشیروں کی فوج لیے بیٹھے ہیں، آئین جو اس ملک کو جوڑے ہوئے ہیں، اب اس آئین کے درپے ہیں، یہ اعزاز مسلم لیگ کو سزاوار ہے کہ اس نے اپنے ہر دور حکومت میں اداروں سے جنگ کی ہے، کبھی فوج سے کبھی عدلیہ سے، آج بھی پارلیمنٹ کو عدلیہ کے سامنے کھڑا کردیا ہے۔
کہا جارہا ہے کہ 2023 ملک میں عام انتخابات کا سال ہے ۔ لیکن اب جس طرح سے قبائلی علاقوں میں آپریشن کے سیاہ بادل منڈلا رہے ہیں، اس سے لگتا ہے کہ انتخابات کے بجائے ملک میں نئے سرے سے خون خرابے کا پروگرام بنایا جا رہا ہے، تاکہ عوام کی توجہ انتخابات سے ہٹ جائے۔
پاکستان میں ایک جماعت اسلامی پاکستان سے عوام کو بہت امیدیں ہیں، لیکن جماعت اسلامی پاکستان کو ٹیک آف کرنے کے لیے جس حکمت عملی، ویژن، کشا کش ،اور سیاست میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیئے تھا، وہ اس سے دور ہے، یا اسے جان بوجھ کر دور رکھا جارہا ہے، ایک بہترین پروڈکٹ، دیانت دار اور امانت دار قیادت کے ہوتے ہوئے، جماعت اسلامی کوئی واضح اور دو ٹوک موقف اپنانے اور اپنے سیاسی قوت کو میدان میں لانے سے قاصر رہی ہے۔اس کی اس پالیسی کا فائدہ، پیپلزپارٹی، پی ڈی ایم کو ہوا ہے، وہ پی ٹی آئی، اور پی ڈی ایم دونوں کو ایک ہی سانس میں ناکام کہتے ہیں۔ لیکن ایک حکومت میں ہے اور دوسری اپوزیشن میں ۔ دونوں میں واضح فرق ہے، ایک اسٹیبلشمنٹ کی اتحادی ہے، اور دوسری اس سے نبرد آزما۔ انھیں اپنا وزن سوچ سمجھ کر کسی پلڑے میں ڈالنا چاہیئے۔ زلزلہ سیلاب ،آفات میں عوام کی مدداور خدمت نے عوام کا جماعت سے تعارف تو کرایا ہے، لیکن اسے ووٹوں میں ڈھالنا ایک مشکل کام ہے،
جماعت اسلامی ضرورکسی سے اتحاد کیے بغیر اپنے پلیٹ فارم، اپنے جھنڈے اور اپنے نشان ترازو پر الیکشن میں لڑے لیکن اسے سیاسی حکمت عملی اور مقامی سطح پر” لو اور دو “کے اصول پر کسی نہ کسی کا تو ساتھ دینا ہوگا۔