بچپن اگر سہانا ہو تو بڑھاپے کی دہلیز پر پہنچ کر ذہن کے دریچوں پر دستک دیتا رہتا ہے اور بے اختیار لبوں پر تبسم بھی بکھیر دیتا ہے۔
ان سہانی یادوں کو جلا دینے والے والدین، گھر کے بزرگ، استاد اور دوست احباب سب شامل تھے، گرچہ یہ چند دہائیاں پیچھے کا سفر ہے لیکن رشتوں کے درمیان فاصلے کم تھے یہی وجہ ہے کہ سب کے دکھ سکھ سانجھے ہوتے تھے، ذرا سی تکلیف پر سب دوڑے چلے آتے بلکہ سب کی یہ کوشش ہوتی کہ ایک ہی محلے میں سب کے گھر ہوں تاکہ وقت ضرورت سب حاضر ہو جائیں،کسی گھر میں شادی ہوتی تو چند دن پہلے ہی سےخاندان کی لڑکیاں شادی والے گھر میں ڈیرہ ڈال دیتی تھیں جس کی وجہ سے شادی والے گھر میںبڑی رونق ہوجاتی ،آس، پڑوس،کی لڑکیاں بھی آکر ڈھول بجاتی اورسہرے گاتی۔
اسی طرح رمضان آتا تو محلوں میں لڑکے تراویح کے لیے جاتے تو،آس پڑوس کے دوستوں کو اکٹھا کر کے جاتے سحری میں جگانے والے آتے تھے لیکن اس پڑوس کی سب خبر رکھتے کہ سب آٹھ گئے ہیں یا نہیں؛؛ اگر کسی کے گھر میں لائیٹ جلتی نظر نہ آتی تو اماں کسی بچے کو دوڑاتی کہ جا سامنے والی خالہ کے گھر کا دروازہ بجاکر ا پھر سب محلے والوں کو باری باری افطاری بھیجنا اور وہاں سے آئی ہوئی افطاری کے مزے اڑاناواہ مزا اجاتا، ہمارا بڑا مشترکہ خاندان تھا لہذا افطاری بھی زیادہ بنتی پھر پڑوس سے آئی ہوئی افطاری بھی شامل ہوجاتی، افطار کے جو بچ جاتی، وہ افطاری تراویح کے بعد ہم دونوں بہنیں جو پورے خاندان میں جڑواں بہنیں مشہور تھیں (حالانکہ جڑواں نہیں تھے) اس افطاری کے سامان پر ہاتھ صاف کر تی تھی اور گپ شپ بھی ہوتی رہتی، گفتگو کا موضوع ہمارا اسکول، کلاس فیلو اور ٹیچرز ہوتی تھی، ایک اور اہم بات جو میں اپنے بچوں سے دھراتی رہتی ہوں کہ بابا اپنے خاندان کے بڑے بیٹے تھے لہذا عید کے موقع پر پورے خاندان کے بچوں کے لیے عید کے کپڑے بنواتے ۔
بابا کا کہنا تھا کہ یہ ان سب کا مجھ پر حق ہے اور بابا کے اس عمل پر کبھی اماں نے اعتراض نہ کیا بلکہ خوش ہوتی تھی؛ عید کے پہلے دن اماں صبح سویرے پانچ چھ کلو بکرے کا گوشت بناکر رکھ دیتی، میرے دادا چونکہ خاندان کے بڑے تھے لہزا نماز عید کے بعد سب ان سے عید ملنے آتے، تو گھر میں بڑی رونق ہوجاتی پھر یہ مہمان اماںکے ہاتھ سے پکا ہوا قورمہ اور شیر خرمہ کھائے بغیر نہ جاتے اماں ان کی مہمان نوازی کو اپنا فرض سمجھتی اورخوش ہوتیں ، یعنی دادا کی وجہ سے عید پر ہمارے گھر رونق دوبالا ہوجاتی اور ہم بہنیں اور ہماری بھابھی سارا دن روٹیاں بنانے اور برتن دھونے میں گزار دیتے لیکن سب کے چہروں پر مسکراہٹ اور شادابی نظر آتی کیا دن تھے کیا سادگی باورچی محبتیں تھیں جو آج بہت کم نظر آتی ہیں۔
آج بھی ہم اپنے ان بچپن کے سہانے اور معصوم دنوں کو یاد کرکے لطف اندوز ہوتے ہیں اور اپنے بچوں سے شئر کرتے ہیں
اگر ان دنوں کا آج کے دنوں سے موازنہ کیا جائے تو بہت فرق نظر آتا ہے ہر بندہ اپنی زندگی میں اس قدر مصروف ہوگیا ہے کہ اس پڑوس کی کوئی خبر ہی نہیں کہ رہتا کون ہے پھر بھی شکر کے اس موبائل کے ذریعے رشتے داروں کی خیر خیریت معلوم ہو جاتی ہے اگر ابھی یہ حال ہے تو نہ جانے آگے کیا ہو ذرا سوچئے پھر تو فاصلے مزید بڑھ جائیں گے یہ لمحہ فکریہ ہے ہم سب کے لیے۔