خوف

خوف کیا ہے ؟ کہاں سے آتا ہے؟ کیسے پیدا ہوتا ہے؟اور کس سےآتاہے؟ خوف درحقیقت انسان کی کیفیت سے پیدا ہونے والی ایک ایسی حقیقت بھی ہے احساس بھی اور خیال بھی یا وہم کی فہرست میں بھی گنا جا سکتا ہے ،لہذا اس کی بہت سی اقسام ہیں خوف انسان کی اندرونی یا کبھی کبھار بیرونی حالات سے واقعات سے حادثات سے یا پھر کسی چیز کی برائی سے یا نقصان پر بھی پیدا ہو سکتا ہے اور کبھی یہ خوف کسی کی باتوں اور قصوں سےبھی دل میں گھر کر جاتا ہے ،خوف کسی چیز کو زیادتی میں دیکھ کر بھی پیدا ہو سکتا ہے جیسے آگ ،پانی،اونچائی گہرائی زیادہ اندھیرا بھیڑ اور پھر زندگی کی سب سے بڑی حقیقت موت سے بھی پیدا ہوتا ہے،خوف زیادہ تر بچپن سے ہی پیدا ہوتا ہے اور کبھی تو وقت کے ساتھ یہ کم ہو جاتا ہے مگر کبھی وقت کا یہ بہتا دھارا اسے بڑھا دیتا ہے اور دل و دماغ پر طاری ہو جاتا ہے جسے ایک فوبیا بھی کہا جاتا ہے۔

ویسے اگر ہم کسی بھی بات کو ضرورت سے زیادہ ذہن پر حاوی کر لتے ہیں تو وہ ہمیں بیمار کر ہی دیتی ہے، بچپن زندگی کا ایسا وقت ہے جس میں کسی کے دل میں آسانی سے خوف ڈالا بھی جا سکتا ہے اور نکالا بھی جا سکتا ہے،کیونکہ بچپن ایک ایسا کورے کاغذ کے مانند ہوتا ہے کہ اس پر لکھا ہر لفظ یادگار ہوتا ہے،زندگی کے نشیب و فراز میں انسان بہت کچھ فراموش کر سکتا ہے مگر بچپن کے قصے یا کہانیاں نہیں ،اسکی وجہ یہ بھی ہے کہ ذہن ہر قسم کی فکر پریشانی سے انجان ہوتا ہے اور تازہ اور شفاف پانی میں اگر آپ رنگ مکا دیتے ہیں تو وہ اسی رنگ میں بدل جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ تربیت کا اہم دور انسان کی ابتدائی عمر سے ہی شروع کر دیا جاتا ہے۔

مجھے بہت اچھی طرح سے یاد ہے کہ میری دادی امی ہمیں ایک کہانی سنایا کرتی تھیں جس میں مزاح بھی تھا خوشی بھی اور سبق بھی مجھے بس ایک یہی کہانی پسند تھی اور ہمیشہ ان سے میری فرمائیش اسی کہانی کی ہوتی ،آج تک میں نے بےشمار قصے ڈرامے اور کہانیاں سنی اور دیکھی بھی مگر کچھ وقت کے ساتھ وہ دماغ اور دل سے جیسے بھول گئی ہوں مگر میری دادی امی کی وہ کہانی مجھے آج بھی یاد ہے اور حرف بہ حرف یاد ہے میں نے کہیں پڑھا تھا کہ کبھی بچوں کو جن وپری اور ایسی کسی بات سے ڈرانا نہیں چاہیے کہ یہ بچوں کی شخصیت کو مسخ کر کے رکھ دیتا ہے!

سچ کہوں تو بچوں کو اگر آپ ڈرانا چاہتے ہیں تو برے کام سے اس کے انجام اور نقصان سے ڈرا سکتے ہیں اس سے انکی تربیت بھی ہجائے گی اور اصلاح بھی ! بچوں کو اللہ کی صفات بتائےاور خوف خدا دل میں پیدا کرنے کی کوشش کریں کیونکہ آپ نے یہ محسوس کیا ہے کہ اللہ ہی ایک وہ واحد ہستی ہے کہ جس سے ڈرنے سے ہم اسکے پاس جاتے ہیں باقی زندگی سے موت تک ہم جس چیز اور شخص سے خوفزدہ ہوتے ہیں تو اس سے دور رہنے کی کوشس کرتے ہیں !خوف خدا درحقیقت کچھ اور ہے اور یہ میرے خیال کے مطابق اس کی سچائی اور گہرائی کچھ اور ہے۔

ہم اللہ سے ڈر کر اس سے نہیں جڑتے بلکہ یہ اللہ کی ناراضگی کا خوف ہمیں اللہ سے جوڑتا ہے اور پھر قرب و محبت جس کو حاصل ہو جاتا ہے نا تو پھر اسے دنیا کی ہر چیز کا خوف ختم ہو جاتا ہے ہمیں دیکھنا یہ ہی ہے کہ کیا باتیں ہیں جو اللہ کو خوش کرتی ہیں اور وہ کرنا ہے جو اللہ پسند نہیں کرتا اسے ہمیں بھی ناپسند کرنا ہے ہمیں یہ کرنا ہے کہ ہمارے پیارے آقا حضرت محمدﷺکے اسوہ حسنہ کو اپنانا ہے تا کہ ہم اللہ اور نبی پاکﷺ کی خوشنودی حاصل کر سکیں !خوف ہمیں یہ ہونا چاہیئے کہ اللہ کی مخلوق کو ہم سے کوئی نقصان نہ پہنچے کسی کی دل آزاری نہ ہو !

میری ندامت بھری چاہت اگر میرے رب کو منظور ہو جائے

خوشی اتنی ہو کہ نم آنکھیں ہوں مگر دل کا ہر غم دور ہو جائے

آمین