میں کلمہ پڑھتا ہوں میں مسلمان ہوں۔ آخرت کو بھی مانتا ہوں، کتب الٰہی اور ملائکہ پر بھی ایمان لاتا ہوں؛ ہاں ہاں میں مسلماں ہوں! دل و جان سے اللہ کی ذات کی وحدانیت کی گواہی دیتا ہوں، اس بات پر کامل یقین ہے اور زبان سے بھی اقرار کرتے ہوئے خدائے تعالی کو اس کی ذات و صفات میں یکتا مانتا ہوں۔
مگر !۔۔۔۔۔ مگر میں اُس کی ایک نہیں مانتا۔
دورِ حاضر میں تقریباً ہر مسلمان کے حالات کچھ ایسے ہی ہیں۔ وہ مسلمان تو ہے مگر اس کے اندر کا مومن کہیں سو گیا ہے اور ایسا سویا ہے کہ جگائے نہ جگے، آج کے مسلمان میں جھوٹ عام ہے، آج کے مسلمان میں سود لیں، رشوت دیں کا بازار گرم ہے۔ آج کا مسلمان کم تول کر اپنا محل تعمیر کرنا چاہتا ہے۔ غیبت تو گناہ جیسے رہا ہی نہیں۔ ہم نے غیبت کو اپنی زندگی میں اس قدر شامل کر لیا ہے کہ یہ ہمارے وجود کا ہی حصہ بن گئی ہے اس کے بنا ہم خود کو نا مکمل محسوس کرتے ہیں۔ یہ ہماری زبان کو ایسی لذت بخشتی ہے کہ اس کو اگر ہم اپنی محفلوں سے نکال دیں تو خاموشی کے سوا کچھ نہ بچے۔ حدیث پاک کے مطابق غیبت ایک کبیرہ گناہ ہے جو کہ زنا سے بھی بد تر ہے۔ جس میں انسان اپنے بھائی کا گوشت اس طرح کاٹ کاٹ کر کھاتا ہے کہ ڈکار تک نہیں لیتا۔ بے ایمانی تو جیسے ہماری رگ رگ میں رچ بس چکی ہے۔
آج یہ دنیا فسق و فجور سے بھر چکی ہے۔ چاروں عالم گناہوں کا ایک طوفان برپا ہے جو تھمنے کا نام نہیں لیتا۔ قتل و غارت عام ہو چکی ہے۔ غصے اور حسد کی بھڑکتی ہوئی آگ میں جل کر بھائی ہی بھائی کا گلا کاٹ رہا ہے۔ اور پھر ہم اپنی تمام تر تحریب کاریوں کا زمہ دار شیطان کو ٹھہراتے ہیں۔ جبکہ ہم خود شیطان کے چیلے بنے ہوئے ہیں۔ اگر ایسے ہی حالات رہے تو وہ دن دور نہیں جب شیطان خود کو ہمارا چیلہ سمجھنے لگے۔
رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ شروع ہو چکا ہے۔ شیطان جکڑ لیا جا چکا ہے مگر اب بھی ہم کسی نہ کسی گناہ میں ملوث ہیں۔ بہت سے گناہ ہمارے نفسوں کا فریب ہوتے ہیں۔ شیطان تو جکڑ لیا گیا ہے مگر ہمارا نفس آزاد ہے۔ اس کو زنجیروں کی ضرورت ہے۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ اپنے آپ کواچھی مجالس اور بہترین صحبت میں لانے سے بھی خود کو منکرات سے روکا جا سکتا ہے۔ مگر کیا کہ جب ہماری اپنی صحبت ہی اچھی نہیں۔ اگر ہم چند لمحے اپنے ساتھ گزارنے سے کتراتے ہیں، تو جان لیں کہ ہم کتنی بری صحبت میں ہیں۔ سب سے پہلے تو ہم نے اپنی تنہائی پاک کرنی ہے۔ اپنے خیالات کو پاک کرنا ہے۔ اپنی نیتوں کو صاف رکھنا ہے کیونکہ ہمارے تمام اعمال کا دارومدار ہماری نیتوں پر ہے۔ اور اصل مومن تو تنہائی کا ہوتا ہے۔
رمضان المبارک اللہ تعالی کی طرف سے امت مسلمہ کے لیے بہت بڑا تحفہ ہے جس میں بغیر شیطانی مداخلت کے ایک مسلمان اپنا تزکیہ نفس کر سکتا ہے۔ اپنے نفس کو پاک کر سکتا ہے۔ خود کو گناہوں کی دلدل سے نکال سکتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اس رمضان سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں۔ اپنے گناہوں کی معافی کے معاملے میں حریص ہو جائیں۔ اپنے گناہوں نہیں بلکہ اپنے اللہ کی رحمت کو دیکھتے ہوئے بس اسی سے مانگتے جائیں۔ کیونکہ وہ واحد ہستی ہے جس سے جتنا مانگا جائے وہ اتنا خوش ہوتی ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق دے اور ہمارے تمام صغیرہ اور کبیرہ گناہ معاف کرے۔آمین۔