چین کی جانب سے پیش کردہ بنی نوع انسان کے ہم نصیب سماج کے تصور کو ایک دہائی بیت چکی ہے۔آج ایک دہائی بعد، چین کا یہ فلیگ شپ وژن ایک بہتر، مزید خوشحال دنیا کی تعمیر کے لئے ایک عظیم ”بینر” بن چکا ہے۔اس وژن نے ایسے وقت میں مشترکہ ترقی کی عالمی ضرورت کو پورا کیا ہے جب معاشی گلوبلائزیشن کو سخت مشکلات کا سامنا ہے اور پوری دنیا امن، ترقی، سلامتی اور گورننس میں خسارے سے پریشان ہے۔ اس وژن نے پوری انسانیت کے مشترکہ مفادات اور مستقبل کو مدنظر رکھتے ہوئے، پائیدار امن، عالمگیر سلامتی اور مشترکہ خوشحالی کے ساتھ ایک کھلی، جامع، صاف اور خوبصورت دنیا پر زور دیا ہے۔ ویسے بھی چین ہمیشہ بالادستی، توسیع یا اثر و رسوخ کے دائرے کی پیروی کرنے کے بجائے، پرامن اور کھلی ترقی پر ثابت قدم رہا ہے اور یہ وژن ”اشتراکیت” کی عملی تصویر ہے۔
یہاں اس حقیقت کا ادراک لازم ہے کہ بنی نوع انسان کے ہم نصیب سماج کی تعمیر کا ہر گز، ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ ایک نظام یا تہذیب کو دوسرے نظام سے بدل دیا جائے، بلکہ یہ ایک بہتر دنیا کی تعمیر کے لئے ایک ایسی عظیم ہم آہنگی پیدا کرتا ہے جہاں مختلف معاشرتی نظاموں، نظریات، تاریخوں، ثقافتوں اور ترقی کی سطحوں والے ممالک مشترکہ مفادات، مشترکہ حقوق اور عالمی معاملات میں مشترکہ ذمہ داریوں کی حمایت کے لئے اکٹھے ہوتے ہیں۔ درحقیقت، چین ہمیشہ سے ہی عالمی گورننس نظام میں اصلاحات اور اسے فروغ دینے میں عالمی تعاون کی حمایت کرتا رہا ہے جس کا مقصد بین الاقوامی نظام کو مزید منصفانہ اور شفاف بنانا ہے۔اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن کی حیثیت سے چین اقوام متحدہ کے امن مشنز، میری ٹائم ایسکارٹ مشنز اور انسانی امداد کی کوششوں میں بھی پیش پیش رہا ہے۔
عالمی گورننس نظام کی حمایت کے علاوہ، چین ایک کھلی عالمی معیشت کی وکالت کرتا رہا ہے اور زیادہ متوازن، جامع اور پائیدار ترقی کو فروغ دیتا رہا ہے۔عملی طور پر چین نے عالمی ترقی کے نئے محرکات کو فروغ دینے کے لئے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) کو ثابت قدمی سے آگے بڑھایا ہے۔اب تک 151 ممالک اور 32 بین الاقوامی تنظیموں نے بی آر آئی فریم ورک کے تحت تعاون کے دستاویزات پر دستخط کیے ہیں، جس سے شریک ممالک کو بے شمار معاشی ثمرات ملے ہیں۔ تمام شراکت داروں کی جانب سے مشترکہ طور پر تشکیل دیے گئے اعلیٰ معیار کی ”پبلک پروڈکٹ” کے طور پر بی آر آئی نے تقریباً ایک ٹریلین امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے، 3 ہزار سے زائد تعاون کے منصوبے قائم کیے ہیں، بی آر آئی سے متصل ممالک میں تقریباً چار لاکھ سے زائد ملازمتیں پیدا کی ہیں، اور گزشتہ دہائی میں تقریباً 40 ملین افراد کو غربت سے نکالنے میں مدد کی ہے۔چین۔پاک اقتصادی راہداری، جیسے منصوبوں سے، بی آر آئی نے مقامی اور علاقائی ترقی کی حوصلہ افزائی کی ہے اور دنیا کو بے پناہ فوائد فراہم کیے ہیں۔اسی طرح ایشیائی انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک (اے آئی آئی بی) اور نیو ڈیولپمنٹ بینک جیسے کثیر الجہتی مالیاتی اداروں نے بیلٹ اینڈ روڈ ممالک کی ترقی کے لئے اہم مالیاتی مدد فراہم کی ہے۔اکتوبر 2022 تک اے آئی آئی بی نے 191 منصوبوں کی منظوری دی تھی جو ٹرانسپورٹ، توانائی، آبی وسائل اور صحت عامہ جیسے شعبوں میں بنیادی ڈھانچے کی ترقی کو فروغ دینے میں مثبت کردار ادا کر رہے ہیں۔
چین ہمیشہ کثیر الجہتی اور انسانیت کی مشترکہ اقدار کے تئیں اپنے عزم پر قائم رہا ہے اور اشتراکی ترقی کے تصور سے جڑے رہتے ہوئے2021میں،چینی صدر شی جن پھنگ نے گلوبل ڈیولپمنٹ انیشی ایٹو کی تجویز پیش کی، جو ترقی کو اولیت دیتا ہے اور عوام کو مرکز میں رکھتا ہے، اور پائیدار ترقی کے لئے 2030 کے ایجنڈے پر عمل درآمد کو تیز کرنا چاہتا ہے۔اسی طرح سنہ 2022 میں انہوں نے گلوبل سیکیورٹی انیشی ایٹو (جی ایس آئی) کی تجویز پیش کی تھی جس کا مقصد سکیورٹی کے لیے ایک نیا راستہ تخلیق کرنا ہے جس میں محاذ آرائی پر بات چیت کو، گروہ بندی پر شراکت داری کو اور زیرو سم پر جیت جیت کو فوقیت حاصل ہے۔بیجنگ میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان حالیہ مذاکرات جی ایس آئی کے اصول کی عکاسی کرتے ہیں۔ چین کی ثالثی کی کوششوں کی بدولت دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی نے خطے میں استحکام پیدا کیا اور اس کے بعد سے بین الاقوامی برادری نے اسے وسیع پیمانے پر سراہا ہے۔خلاصہ یہی ہے کہ بنی نوع انسان کے ہم نصب سماج کی تعمیر نظریاتی تقسیم کو ہوا دینے یا سرد جنگ کی ذہنیت کے بیج بونے کے بجائے مختلف ممالک کے درمیان اختلافات کو دور کرتی ہے۔ہر ملک کے اپنے قومی حالات اور منفرد خصوصیات ہیں، اور دوسرے ممالک کو اس کا احترام کرنا چاہئے. انسانیت کی جدت کاری کو محض ایک پھولوں کا شو نہیں ہونا چاہئے، بلکہ اسے سو پھول کھلانے چاہئیں، تب ہی دنیا کو مزیدخوشحالی، استحکام اور ترقی کی جانب بڑھایا جا سکتا ہے۔