غفلتوں کی نیندوں سے
خود کو یوں جگانے میں
دور تم سے ہوں تو کیا
پاس پھر سے آنے میں
ابھی وقت لگے گا
راستہ بھی کھو گیا
منزلوں کا نہ کچھ پتہ
دوستوں سے بے ربط
کیوں ہو گیا سب سلسلہ
جواب اسکا پانے میں
ابھی وقت لگےگا
زندگی کی دوڑ سے
بند ھنوں کی ڈور سے
کیوں کھچا سا رہتا ہوں
زخم دل چھپانے میں
درد دل بھلانے میں
ابھی وقت لگے گا
سوچوں میں ہوں کھویا سا
تھوڑا تھوڑا رویا سا
غم کو یوں چھپاتا ہوں
دھیمے دھیمے مسکراتا ہوں
تنہائیوں کی محفل میں
دل کو بہلانے میں
ابھی وقت لگےگا
رات کتنی کالی ہے
آنکھ نیند سے خالی سی
گہرے گہرے بادل بھی
پھیلا پھیلا کاجل بھی
آس کے اس شجر پر
فصل گل اگانے میں
ابھی وقت لگے گا