آزادی کے خواب کی تعبیر کا دن
ہرسال 23 مارچ کا دن آتا ہے، اور ہم اس دن کو یوم تجدید عہد کے طور پر مناتے ہیں ۔ کیا ہم جانتے ہیں کہ ہم اس دن کس عہد کی تجدید کرتے ہیں، یا ہماری نوجوان نسل جانتی ہے کہ پاکستان بطور ایک آزاد و خود مختار ریاست کیوں حاصل کیا گیا تھا؟ 23 مارچ یوم تجدید عہد کاتقاضا ہے کہ ہم اپنے ذہن کے گوشہء میں سوئے ہوئے افکار کو زندہ کرتے ہوئے ، قیام پاکستان کے لئے چلائی گئی تحاریک کو اپنی بصیرت سے دیکھتے ہوئے، قیام پاکستان کے لئے دی گئی قربانیوں کی یاد کو تازہ کرتے ہوئے نہ صرف خود غور کریں کہ قیام پاکستان کا مقصد کیا تھا ، بلکہ اس عظیم مقصد سے اپنی نسل نو کو بھی آگاہ کریںتاکہ نظریہ پاکستان کا تحفظ کیا جاسکے۔
منٹو پارک موجودہ مینار پاکستان لاہور کے وسیع و عریض میدان میں 23مارچ1940 ء کے دن قائداعظم محمد علی جناح نے پورے برصغیر کے مسلمانوں کو جمع کیا، ہندوستان بھر سے مسلمانوں کی ٹولیاں جوق در جوق لاہور آ رہی تھیں، منٹو پارک کا گرائونڈ کھچا کھچ بھر گیا تھا۔ قائداعظم کی رعب دار اور گرجدار آواز سننے کیلئے لوگوں کا سمندر بے تاب تھا۔ قائداعظم اور ان کے ساتھی پرجوش تھے اور وہ یہی وقت تھا جب انہوں نے قیام پاکستان کے مطالبے کو پیش کیا، ایک تاریخی اور یادگار قرار داد منظور کی گئی جس میں مطالبہ کیا گیا کہ’’ برصغیر میں ہندؤ اور مسلمان دو الگ الگ تہذیبیں ہیں، مسلمان اقلیت نہیں ایک قوم ہیں اسلئے ان کے لئے الگ مملکت ناگزیر ہے جہاں وہ اپنے نظریات اور مذہبی تشخص کے مطابق زندگی گذار سکیں ۔ برصغیر کے مسلمان ہندوئوں کے ساتھ اکٹھے نہیں رہ سکتے لہٰذا ہم اپنا الگ وطن حاصل کریں گے ‘‘۔ اس قرارداد لاہور کا نام ہر مسلمان کی زبان پر’’قرارداد پاکستان‘‘ عام ہو گیا۔ اب برصغیر کے طول و عرض میں نعرے لگ رہے تھے ، لے کے رہیں گے پاکستان۔۔۔ بن کے رہے گا پاکستان۔۔۔ مسلمانان برصغیر کو اپنے الگ وطن کے مطالبے کو حقیقت کا روپ ملنے کی قوی امید ہوگئی تھی۔ چنانچہ آزادی کے پختہ عزم، جدو جہد اور قربانیوں کی بدولت پاکستان کے نام سے دنیا کے نقشے پر ایک نیا ملک وجود میں آ گیا جو محض کلمہ طیبہ کے نام پر حاصل ہوا۔
مگر صد افسوس کہ آج ہم نے قیام پاکستان کے عظیم مقصد کو فراموش کردیا۔ آج ہمیں غور کرنا چاہیے کہ شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے کس ریاست کا خواب دیکھا تھا؟ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے کس لئے ایک علیحدہ ریاست کی جدو جہد کی تھی؟ پھر یہ حقیقت آسانی کے ساتھ سمجھی جا سکتی ہے کہ مختلف صوبوں، علاقوں، قوموں اور مختلف فرقوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو جس قوت نے ایک متحدہ قوم بنا دیا وہ قوت اسلامی نظریہ تھا۔ اسلام ہی نے ہمیں قیام پاکستان کے مخالفین کے مقابلہ میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنا دیا تھا۔ قائد اعظم کے مشہور سلوگن ایمان، اتحاد اور تنظیم پر ہی غور کر لیں کہ ایمان کی طاقت نے ہمیں متحد کیا۔ ہم ایک قوم بنے اور ہم اپنے لئے ایک الگ علاقہ، مملکت اور وطن حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
آپ 8مارچ 1944ء کی مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں قائد اعظم کی تقریر کا یہ مختصر ترین اقتباس دیکھیں۔ ’’پاکستان اسی دن وجود میں آگیا تھا جب ہندوستان میں پہلا ہندو مسلمان ہوا تھا۔ مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد کلمہ توحید ہے۔ وطن اور نسل نہیں‘‘۔ قیام پاکستان کا مقصد تھا کہ یہاں اللہ کے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر نازل ہونے والی اللہ کی آخری اور جامع کتاب قرآن کریم کے اصولوں کے مطابق نظام حکومت قائم کیا جائے گا ۔ قائد اعظم کے درج ذیل فرمان کو ملاحظہ فرمائیے۔ ’’اس حقیقت سے ہر شخص واقف ہے کہ قرآن مسلمانوں کا بنیادی اور مکمل ضابطہ حیات ہے۔ جو معاشرت، مذہب، تجارت، عدالت، فوجی امور، دیوانی، فوجداری اور تعزیرات کے ضوابط کو اپنے اندر لئے ہوئے ہے‘‘۔ قائد اعظم نے مسلمانوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ حکم بھی یاد کروایا کہ ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ قرآن حکیم کا ایک نسخہ اپنے پاس رکھے تاکہ وہ اس سے اپنے لئے رہنمائی حاصل کر سکے۔ اللہ ربّ العزت کے خاص فضل و کرم سے ایک آزاد خود مختار، اسلامی فلاحی ریاست، پاکستان کامعرض وجود میں آنا بلاشبہ عوام پاکستان کے لیے قدرت کا ایک بہت بڑا انعام ہے، آج تجدید عہد کی ضرورت ہے کہ جس نظریہ کی برکت سے ہم نے پاکستان حاصل کیا تھا اسی نظرئیے یعنی قرآن کریم کی اصولی ہدایات پر عمل کر کے اور اسوہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی پیروی کرتے ہوئے ہم پاکستان کو ایک پرامن اور بہترین ملک بنائیں گے۔ ہم اہل پاکستان کی زمہ داری ہے کہ با ہمی تنازعات اور فرقہ بندیاں، صوبائی و علاقائی تعصب کو بھلا کر خوشحال و مستحکم اسلامی فلاحی ریاست پاکستان کے لیے اپنا مثبت کردار ادا کریں ۔