عمران اور نعمان دونوں بھائی تھے۔ وہ اچھے بچے تھے مگر چھوٹی چھوٹی باتوں پر اکثر لڑ پڑتے۔ سب ہی انہیں سمجھاتے مگر ان پر کچھ خاص اثر نہ ہوتا۔
رمضان کا بابرکت مہینہ شروع ہو چکا تھا۔ عمران اور نعمان کا بھی دل چاہتا کہ وہ دادا دادی اور امی ابو کے ساتھ مل کر روزہ رکھیں مگر سب ان کو چھوٹا کہہ کر روزہ رکھنے سے منع کر دیتے۔
مگر آج جو نعمان نے روزہ رکھنے پر اصرار کیا تو ابا جان نے روزے سے متعلق ضروری ہدایات دیتے ہوئے ان دونوں کو روزہ رکھنے کی اجازت دے ہی ڈالی۔
اگلی صبح بہت خوبصورت تھی۔ عمران اور نعمان نے سحری کے بعد ابا جان کے ساتھ باجماعت نمازِ فجر ادا کی تھی۔ صبح کی تازہ ہوا، پھول اور چہچہاتی چڑیاں سب بہت خوبصورت تھا۔
گھر آ کر دونوں بھائی کھلونوں سے کھیلنے لگے تو روز کی طرح کھلونا پولیس جیپ پر دونوں کا جھگڑا شروع ہونے کو ہی تھا کہ انہیں یاد آگیا کہ جھگڑا کرنے سے تو روزہ ٹوٹ جائے گا۔ سو انہوں نے جیپ ایک طرف رکھ دی اور جھگڑے سے خود کو روکتے ہوئے زبردستی مسکرانے کی کوشش کرنے لگے۔
اور یہ کوئی ایک واقعہ نہیں تھا۔ دن بھر معمول کے مطابق کئی ایسے واقعات پیش آئے. کبھی کسی کتاب پر تو کبھی پنسل پر، کبھی کسی کام پر تو کبھی آرام پر، بس جھگڑا ہوتے ہوتے بچا کیونکہ ابا جان نے سختی سے سمجھایا تھا کہ لڑائی جھگڑے، جھوٹ، ٹی وی یا موبائل پر فضول کارٹون یا کسی بھی غلط کام پر روزہ ٹوٹ جائے گا اور بھوک پیاس کے سوا کچھ حاصل نہ ہوگا۔ اب عمران اور نعمان ایسے بے وقوف بھی نہ تھے کہ روزہ رکھ کر بھی اجر و ثواب گنوا کر صرف بھوک پیاس کی مشقت اٹھاتے۔ روزہ ایسا اچھا مکمل ہوا کہ آج پہلی بار عمران اور نعمان میں لڑائی نہ ہوئی۔
پہلا روزہ کامیابی سے مکمل کرنے پر دونوں بچوں کا جوش و خروش اور بھی بڑھ گیا۔ انہوں نے رمضان کے باقی روزے بھی بہت محبت سے رکھے۔ ہر روزہ ان کی لڑائی کی عادت کے سامنے ڈھال بنا رہا اور عید تک ان کی لڑائی کی عادت مکمل ختم ہو گئی۔
پیارے بچو!
آپ بھی یہ حدیث دل میں بسا لیجیے اور اس پر عمل کیجیے. تاکہ آپ کا روزہ بھی ایسا ہو جو دنیا میں گناہوں کے خلاف ڈھال اور قیامت والے دن جہنم کی آگ کے خلاف ڈھال بن جائے۔