انسان میں جنسی جذبے کی موجودگی ایک فطری بات ہے۔ یہ ایک ایسا امتحان ہے جس سے ہر انسان کو آزمایا جاتا ہے۔ اس جذبے کا آغاز حضرت آدم کے دور سے ہی ہو گیا تھا۔ دورِ حاضر میں یہ چنگاری آگ کا الاؤ بن چکی ہے۔ جس میں ہر دوسراچھوٹا اور بڑاجل رہا ہے۔ یہ ایک ایسا فتنہ ہے جو بنی آدم پر اس قدر حاوی ہو چکا ہے کہ وہ انسانیت کی معراج سے نیچے گر چکا ہے۔ اس کو احساس ہی نہیں رہا کہ وہ تو اشرف المخلوقات ہے۔ اس نے اپنے طور اطوار ایسے بدلے کہ جانوروں کی سی حصلتیں اختیار کر لیں۔ انسان کے اندر اس جذبے کو ہوا دینے کے لیےمتعددعوامل ہیں۔
فحش مواد کی فراہمی اور صنفی جذبات کو مشتعل کرنے کا بیڑا میڈیا اور سوشل میڈیا نے با خوبی اُٹھا رکھا ہے۔ میڈیا کے اثر سے عریانی کا عنصر بہت بڑھ گیا ہے۔ عریانی اور فحاشی بچے بچے کی دسترس میں ہے۔ باقی کسر ناقص تربیت اور بری صحبت نے پوری کر دی ہے۔ جنسی بے راہ روی کے شکار جنس تک کی پہچان بھول کر قومِ لوط کے نقشِ قدم پر چل پڑے۔ جن کے بارے میں (سورہ النمل آیت 55 ) میں اللہ کہتے ہیں کہ”بلکہ تم لوگ جاہل ہو”۔ اور یہ وہی تھے جو سنبھلے نا اور عذابِ الہی سے ہمکنار ہوئے۔ عملی زنا کے ساتھ ساتھ مجازی زنا کا زہر بھی نسلِ انسانی کے رگ و پے میں گھلتا چلا جا رہا ہے۔
میرا جسم میری مرضی جیسے نعرے کی بدولت بے باکی نے اپنے قدم ایسے جمائے کہ ان فتنوں کے خلاف قانون سازی نام کی بھی نا رہی۔ عزت و حرمت کوئی مطالبہ نا رہا۔ زنا کوئی گناہ نا رہا۔ خوفِ خدا دلوں میں نا پید ہو گیا۔ آخرت کا ڈر نا ہونے کے برابر ہے۔ مرد و زن کا آزادانہ تعامل و اختلاط بڑھ کر اس قدر عام ہو گیا کہ ہر شعبے میں جیسے لازم و ملزوم ہو گیا۔ ایک طرف مرد ہیں کہ اپنی نظروں سے شرم و حیا کو رخصت کر چکے ہیں۔ دوسری طرف عورت اپنے سر کی اخروٹی ہڈی سے لے کر پاؤں کی پیچیدہ ہڈیوں تک خود کو آزاد کر دینا چاہتی ہے۔ لباس کو مختصر سے مختصر کیا جا رہا ہے۔ کبھی لباس کا مطلب ڈھانپنا ہوا کرتا تھا۔ اب توعریاں لباس نے لباس کے معنی تک بدل ڈالے ہیں۔ لباس کا مقصد ڈھانپنا کم اور دکھانا زیادہ ہو گیا ہے۔
اِن تمام تر گناہوں اور خرافات سے بچنے کا واحد حَل خوفِ خدا ہے۔ اللہ کا قرآن ہے۔ اللہ تعالی ہم سب کو اس کبیرہ گناہ سے محفوظ رکھے ۔ آمین۔