کسی بھی ادارہ کی نیک نامی اورساکھ کا ادارومداراُسکی فعالیت پرہے۔فعالیت جس قدر بہتر سے بہترین اندازمیں جاری رہے گی۔اُس قدرادارہ کے اہداف پرکام میں تیزی آئیگی۔چنانچہ اس تناظر میں دیکھا جائے تو تعلیمی اداروں میں ”نظم و ضبط“کا ہونا،نئی نسل کو ابتدائی سطع پرہی ترتیب کیساتھ مثبت سمت میں آگے بڑھنے کا ذریعہ بنتا ہے۔یہیں سے بچوں کو پتہ چل جاتا ہے۔کہ وقت کتنی قیمتی شئے ہے۔اور وہ وقت کا درست استعمال یہیں سے سیکھتے ہیں جو آگے چل کرعملی زندگی میں بہت ہی مفید ثابت ہوتا ہے۔چونکہ مسلح افواج کا تمام ترپیشہ وارانہ طرز زندگی اور اسکے لئے مقررکردہ اہداف اور اخذکردہ نتائج کے ضمن میں ”وقت“اور احساس ذمہ داری کا بہت ہی عمل دخل ہوتا ہے اگرچہ ایسے لوگ بھی ہیں جو زندگی کو سرے سے آزادی سے جائع کرنے کو”آزادی“ سمجھتے ہیں۔تاہم ملک میں ہرطبقہ میں نظم و ضبط کی اہمیت کو تسلیم کیا جاتا ہے۔اوراس تناظرمیں فوج کے نظم و ضبط اور اسکے اثرات و نتائج کا قائل ہے۔چونکہ مسلح افواج میں خدمات انجام دینے والوں کی سہولت کیلئے ملک بھرکے تمام کنٹونمنٹ بورڈزکی حدودمیں تعلیمی اداروں کا جال بچھا ہوا ہے۔اس لئے جہاں حاضرسروس فوجیوں کے بچوں کوملک بھرکے ہراسٹیشن پریکساں نصاب،یونیفارم اورداخلہ وغیرہ کی سہولت حاصل ہے۔اور یہ فکر نہیں ہوتی کہ کسی دوسرے صوبے یا شہرمیں ”آرمی پبلک اسکول/کالج میں نصاب اور یونیفارم کا فرق ہونے سے مسئلہ پیدا ہوگا۔یا داخلہ کی مشکلات ہونگی۔یہ سب پوسٹنگ سے منسلک معاملات ہوتے ہیں۔متوسط طبقہ کے شہریوں،سمیت بزنس مین ہوں یا کوئی دوسرے شعبہ زندگی سے منسلک لوگ ہوں۔زیادہ ترلوگ اپنے بچوں میں وقت کی قدرکی عادت ڈالنے اور زندگی کو نظم و ضبط کا پابندبنانے کی نیت سے ”آرمی پبلک اسکولز/کالجز“میں داخلہ کے خواہاں رہتے ہیں۔اور ہرممکن کوششیں کرتے ہیں۔
”آرمی پبلک اسکولز/کالجز“کیلئے انتظامیہ اور اساتذہ سمیت معاون عملہ کا براہ راست فوج سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔اور اِنھیں اپنی خدمات کا معقول صلہ دیا جاتاہے۔جبکہ دفتری اُمورسمیت حفاظتی عملہ میں شامل لوگ ایکس سروس مین ہوتے ہیں۔ ”آرمی پبلک اسکولز/کالجز“کی انتظامی حکمت عملی اور درس وتدریس کے تمام ترعمل کو اپنے چینل کے ذریعے متعلقہ اسٹیشن کے کمانڈرصاحب دیکھتے ہیں۔
یوں تو ملک میں بہت سے ایسے تعلیمی ادارے بھی ہیں جو مغربی طرزتدریس سے کام چلاتے ہیں۔تاہم اُنکی بہ نسبت ”آرمی پبلک اسکولز/کالجز“معیاری درس وتدریس کیساتھ ساتھ غیرنصابی سرگرمیوں کے ذریعے طلبہ و طالبات کی صلاحیتوں میں اضافہ ہی نہیں کرتا، بلکہ اُن میں ”حُب و الوطنی“کے جذبے بھی پروان چڑھاتے ہیں۔ جسکی مثال آزادکشمیرکے دارالحکومت مظفرآبادمیں قائم ”آرمی پبلک اسکولز/کالج“ہے۔ ذیل میں امسال سالانہ تقریب تقسیم انعامات کی روداد پیش خدمت ہے۔چونکہ زندگی کی دوڑمیں شامل رہنے کیلئے مسلسل مصروفیات کا ہونا لازمی امرہے۔اور پھرسرپرائزڈے سے متعلق سرگرمیاں بھی کی جانا تھیں۔اس لئے ایک طرح سے چند ہفتے کی تاخیرسے APS کی سالانہ تقریب کی رودادلکھنے کا موقع میسر آیا ہے۔مجھے چیئرمین اے پی ایس اینڈ سی برگیڈئیر مہتاب ادریس صاحب کی جانب سے ”آرمی پبلک سکولز/کالج“کی سالانہ تقریب تقسیم انعامات میں شرکت کی دعوت ملی۔چنانچہ مقررہ وقت پر ”آرمی پبلک اسکولز/کالج“پہنچا۔جہاں والدین بھی اپنے بچوں کیساتھ موجود تھے۔اورخواتین و مرد اساتذہ میں بھی جوش و خروش موجود تھا۔جنہیں اپنی سال بھرکی محنت کے نتائج کا ادراک ہونے کیساتھ ساتھ ”صلہ“ کی توقعات بھی لازمی طورپرتھیں۔ کی سالانہ تقریب تقسیم انعامات میں شرکت منفردحکمت عملی، والدین کوبچوں سے ہارپہنا ئے گئے۔دارالحکومت مظفرآباد کے آرمی پبلک اسکول اینڈکالج میں سالانہ تقریب تقسیم انعامات کاانعقادہو ا ہے۔تقریب کا آغازتلاوت کلام پاک اور نعت رسول مقبول سے ہوا۔ جسکے بعد پاکستان اور آزادکشمیر کے ترانے پیش کئے گئے۔جبکہ شرکاء سمیت تمام حاضرین حسب روایت ،ترانوں کے احترام میں کھڑے رہے۔ تقریب میں تقسیم انعامات کاباقاعدہ آغازکرتے ہوئے چیئرمین ادارہ برگیڈئیرمہتاب ادر یس کا طلبہ و طالبات کے حوالے سیکہناتھا کہ بچے ساراسال محنت کرتے ہیں۔ بچے چاہتے ہیں انکی محنت کا اعتراف کیا جائے۔ انھیں شاباش ملتی رہتی ہے۔اس لئے (آپ) شرکاء دل کھول کر بچوں کی پروفارمنس کی داد دیں۔سیشن 20 23کی تقریب کے مقصدبارے بات کرتے ہوئے چیئرمین اے پی ایس اسکول اینڈکالج برگیڈئیر مہتاب ادریس کا کہناتھا کہ اس تقریب کا مقصد والدین کی انتھک کوششوں کا اعتراف کرناہے۔ جنہوں نے دن رات محنت کرکے اپنے بچوں کے یہاں تک پہنچنے میں مدد دی ہے۔ چنانچہ تقریب میں شامل والدین تعلیم اور غیرنصابی سرگرمیوں کے حوالے سے نمایاں حیثیت کے حامل طلبہ و طالبات کے بلائے جانے پر ہمراہ اسٹیج پرآتے گئے،جہاں چیئرمین برگیڈئیر مہتاب ادریس،کمشنرمظفرآباد ڈویژن مسعود الرحمان اور پرنسپل مسز شاہدہ رحمان موجود تھے۔اس طرح سیکڑوں شرکائے تقریب کے سامنے والد/والدہ میں سے جو بھی ساتھ آیا۔یا دونوں آئے۔انکے گلے میں ہار ڈالے اور ایک مگ پیش کیا۔اسکے بعدمعززمہمان خصوصی وچئیرمین اورپرنسپل سے انعام وصول کئے ۔ چیئرمین کا کہناتھا کہ والد/والدہ روزانہ جب مگ میں چائے پئیں۔ انھیں اپنے بچے پر فخر ہو۔جسکی بدولت والدین کی اہمیت وحیثیت اور ان کوششوں کا اعتراف ہوا۔جنکی بدولت ایک بچہ تعلیمی قابلیت صلاحیت میں نکھرتے ہوئے آگے بڑھا ہے۔
قارئن! آرمی پبلک اسکول اینڈکالج نیٹ ورک نئی نسل میں قومی سوچ و نظریہ پروان چڑھانے میں پیش پیش ہے۔جبکہ نظم و ضبط کیساتھ اسکول۔کالج کی زندگی سے بچوں میں ہر کام کی ترتیب اور تنظیم کا شعور پیداہوتا ہے جوکہ آگے چل کر بچوں کی عملی زندگی کے لئے مضبوط بنیادبنتاہے۔یہاں یہ امرقابل ذکر ہے کہ اے پی ایس اینڈسی میں درس و تدریس کی سرگرمیاں بہترسے بہترین بنانے کے لئے ہرسیشن کے انتظامی اُمور کی نگرانی کے لئے الگ الگ اہتمام کیا گیا ہے۔ چونکہ کورونا وباء کے دوران آن لائن تعلیمی سرگرمیوں کی ناگزیرضرورت کے پیش نظر اب تقریباََہربچے کے ہاتھ میں موبائل فون پرنیٹ سے استفادہ کیا جاتا ہے۔اورپھر سوشل میڈیا کے ممکنہ منفی اثرات کو ملحوظ کاطررکھنا بھی ناگزیرہے۔اس لئے ”آرمی پبلک اسکول اینڈ کالج“میں بچوں کو سوشل میڈیا کے منفی اثرات محفوظ رکھنے کے لئے باقاعدہ طور پر ماہرین نفسیات/ اساتذہ کی خدمات بھی لی گئی ہیں ۔تاکہ کسی بھی بچے کی دماغی صحت و کیفیت کی جانچ کا سلسلہ بھی چلتا رہے۔ چیف گیسٹ مسعودالرحمان اور پرنسپل مسزشاہدہ رحمان نے اساتذہ کرام کی خدمات کے اعتراف میں انعامات دئیے گئے۔جس وقت ایموشنل ہیلتھ ٹیچرز کواسٹیج پربُلایا گیا تو شرکاء کو بتایا گیا کہ بچوں کو دماغی طور پر کئی طرح سے مسائل کا سامنا ہوسکتاہے اس لئے یہ ایموشنل ہیلتھ ٹیچرز کی خدمات لی گئی ہیں۔تاکہ بچے کسی رکاوٹ کے بغیرآگے بڑھتے جائیں۔جذبہ اسکول۔جو بچے کچھ کمزورہیں انکے لئے سپورٹ ایکٹی ویٹیزکے لئے بھی ایک چاررکنی ٹیم رکھی ہوئی ہے۔ تقریبات کے انعقاد کے حوالے سے کام کرنیوالے گروپ کی ستائش بھی کی گئی۔لائبریری ہے۔جنہوں نے کورس کررکھا ہے۔انھیں بھی سرٹیفکیٹ دئیے گئے بچوں کو سمجھتے ہوئے انکی تعلیم کو جاری رکھنے والی ٹیچرزکو سرٹیفکیٹ دئیے۔اس امرپرکوئی دورائے نہیں ہیں کہ والدین اپنے بچوں کی بہترتعلیم وتربیت کے لئے زندگی میں کئی حوالے سے انتھک کوششیں کرتے ہیں معاشی طور پر پوزیشن جیسی بھی ہو مگرمسلسل توجہ اور ریاضت سے تعلیم و تربیت کا سلسلہ برقرار رکھتے ہیں۔تاکہ آگے چل کرانکے بچے زندگی کی دوڑمیں کامیابیاں وکامرانیاں سمیٹیں۔متوسط اور کم آمدن والے والدین ساراسال اپنے بچوں کی تعلیمی ضروریات پوراکرنے کے لئے اپنی کئی ضرورتوں کو پس پشت ڈال دیتے ہیں۔اور جب انھیں تقریب تقسیم انعامات میں اعزازکیساتھ مدعو کیا جائے۔اور بچوں کی تعلیمی کامیابیوں و کامرانیوں کا کریڈٹ انھیں دیا جائے۔ اور ادارہ کے چیئرمین اور پرنسپل کی موجودگی میں والدین کے گلے میں ہار ڈال کر ساتھ ہی ایک کپ پیش کیا جائے۔تاکہ روزانہ صبح جب کپ میں چائے پیئیں تو انھیں یاد رہے کہ وہ اپنی محنت و جدوجہد سے اپنے بچوں کو شاندار مستقبل دینے کی کوششوں و کاوشوں کا اعتراف کیا جاتاہے۔مسلح افواج پاکستان،وطن عزیزکی جغرافیائی ہی نہیں نظریاتی سرحدوں کی محافظ بھی ہیں۔اور انکی بدولت ہی مملکت خدادادکے اجتماعی وجود و تشخص کا اظہار ہوتاہے۔اس لئے ضروری ہے۔ پاک فوج کے زیرانتظام چلنے والے تعلیمی اداروں میں اسلامی و مشرقی تہذیب و ثقافت کی جھلک بھی نمایاں طورپرنظرآئے۔ چیئرمین ”آرمی پبلک اسکول اینڈکالج“ برگیڈئیر مہتاب ادریس نے مختلف سرگرمیوں کے ذریعے ناصرف نئی نسل کیساتھ بطورادارہ ”فوج“کے روابط کوسمت دینے میں سرگرمی دکھائی ہے۔بلکہ مسلح افواج اور عوام میں میل جول کوبڑھانے میں قابل ذکر کرداراداکیا ہے۔اور پھرپاک فوج بھی اپنی اولین ترجیحات میں ریاستی عوام کی توقعات و اُمیدوں کو رکھے ہوئے ہے۔اور سارا سال میڈیکل کیمپس سمیت مختلف شکلوں میں ایسے مواقع پیدا کئے جاتے ہیں۔جوکہ ”باہمی اعتمادویقین“کومضبوط کریں۔ چنانچہ پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں کی محافظت کے فریضہ پرمامورسپوتوں کے مینڈیٹ میں ”نظریاتی سرحدوں“کا دفاع بھی ہے۔اس لئے اپنی تحریرکو سمیٹتے ہوئے فقط یہ کہنا ہے کہ موجودہ دورمیں جس طرح زندگی کے اندازواطوارمیں تبدیلیاں آنے لگی ہیں۔ اِنکے اثرات ”ہماری اسلامی و قومی ثقافت اور مشرقی اقدارپربھی مرتب ہورہے ہیں۔ توقع کی جاسکتی ہے کہ نظریہ پاکستان کی پاسبان فوج کی زیر نگرانی علم کی روشنی پھیلانے والے تعلیمی اداروں میں بھی اسلامی طرز اورمشرقی روایات کی آبیاری کو ”پہلی ترجیح“میں رکھتے ہوئے خواتین اساتذہ ”اسلامی اقدارو مشرقی روایات کے پاسبان ثابت ہونگے۔
اس شعرکیساتھ اختتام کرتے ہیں۔
خدا کرے میری ارض پاک پر اترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشہء زوال نہ ہو