اماں ! آج بھی ابا ہمارے ساتھ روٹی نہ کھائے گا؟
کام بتھیرا ہے، ختم کرلے گا تو آجائے گا- چل تو چپ کر کے روٹی ختم کر اور پڑھائی کر لے-“
ابا آج کل اتنا کام کیوں کر رہا ہے- رات بھی گھر دیرسے آتا ہے اور صبح بھی میرے جانے سے پہلے پہلے نکل جاتا ہے-
باولے لڑکے، تُو تو جانے ہے کہ مسلمانوں کے روزے شروع ہونے والے ہیں- آٹے، چاول، دالوں کی قیمتیں آسمان کو پہنچ جانی ہیں- پھر کہاں خرید سکیں گے- ابھی سے دوگنا، چوگنا کام کریں گے تو ہی کچھ خرچہ پانی کا بندو بست ہو سکے ناں !“
اماں ! اتنی روٹی کیوں بنا رہی ہو- ہمارے لئیے تو پوری ہے-“
کل صبح تجھے ناشتہ نہ بنا کے دے سکوں- کل ملکوں کے یہاں بھی کام پر جانا ہے مگر ان کا کہنا ہے کہ سویرے تڑکے ہی ان کے یہاں صفائی کا کام کرنا ہے اور پھر برتن ورتن دھونے، اس لیے صبح تیرے لئیے ناشتہ نہ بنا سکوں گی- چل یہ تھالی خالی ہو گئی تو کھرے میں رکھ دے میں دھو ڈالوں گی-“
وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور خود ہی اپنی تھالی اور گلاس دھونے لگا-
باولے چھوڑ دے اسے جا، جا کر پڑھائی کر لے- میں کرلوں گی-
اماں، اتنی جگہ کام کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ کیا ہمارا خرچہ بہت بڑھ گیا ہے؟ مسلمانوں کے مہینے میں ہمارا کام نہ ہوگا کیا؟
ایسا نہ ہے لڑکے! ہر کسی کو کمانے کا موقع چاہیے- اب سال میں ایک ہی بار یہ با برکت والا مہینہ آتا ہے تو مسلمانوں کو بھی اپنی روزی روٹی کی فکر کرنی ہوتی ہے ناں! تو بس ہر چیز کی قیمت بڑھا دیتے ہیں- باجی کہہ رہی تھیں کہ بہت رحمتیں ہوتی ہیں اس مہینے میں اور ان کا خدا بہت برکتیں نازل کرتا ہے-
اسی لئیے اتنی مہنگائی ہو جاتی ہے- ابا کے ساتھ ساتھ اماں تم بھی دن بھر جانور کی طرح کام کرتی ہو-
ارے باولے لڑکے، کام ہو تو ہی برکت بھی آئے ناں، قیمتیں بڑھ جاتی ہیں تاکہ ذیادہ کمائی ہو- ایسے ہی تو کمائی ہوتی، برکت آتی- اب ہمارے بس میں تو نہ ہوگا کہ ہم اس پورے مہینے میں آٹآ چاول، خرید سکیں، کوئی فل فروٹ چکھ لیویں- اب کام تو دوگنا چوگنا کریں گے تو ہی تھوڑا روٹی پانی خرید کر رکھ سکیں-، سمجھ گیا بٹو !
اماں نے رسان سے اپنے نو سالہ نا سمجھ کو سمجھایا کہ کیسے رمضان کا مہینہ مسلمانوں کے لئیے برکتیں لاتا ہے اور کیسے غریب لوگوں کو اس ماہ میں خرید و فروخت میں تکلیف ہوتی ہے-
صبح وہ اسکول کے لئیے تیار ہوا تو اماں ناشتہ چولہے کے آگے رکھ کر پیڑھی ساتھ میں رکھ گئی تھی- وہ چپ چاپ روکھی سوکھی کھا کرا سکول کو روانہ ہوگیا- آج اسکول کی فیس کا آخری دن تھا- ابا نےتو کل رات ہی فیس اماں کو تھما دی تھی مگر جانے کیوں وہ نو سال کا کم عمر بچہ فیس کی رقم ہاتھ میں دبائے بیٹھا رہا-
یاسر مسیح! تمہاری فیس آج بھی نہیں آئی؟
ماسٹر نورالزمان نے اونچی آواز میں اس کا نام لیا تو وہ اپنی جگہ سے کھڑا ہو گیا-
وہ ماسٹر صاحب ابا نےتو فیس دی تھی لیکن میں جمع نہیں کر وا سکتا، میں اس ماہ اسکول نہ آسکوں گا-
ماسٹر صاحب نے حیرت اور غصے سے اس کی جانب دیکھا-
کیوں؟ کیا فیس کہیں گرا دی ہے یا کوئی ویڈیو گیم کھیل کر پیسے ضائع کر دئیے؟ بولو!
یاسر اپنی جگہ کانپ سا گیا-
وہ— وہ ماسٹر صاب، مسلمانوں کا برکت والا مہینہ سر پر آیا کھڑا ہے- اس مہینے میں آٹا، چاول اور دالیں بہت مہنگا ہو جاتا ہے- میرے اماں، ابا بہت محنت کر رہے ہیں- صبح سے رات ہو جاتی مگر ابا کی شکل نہ دکھائی دیتی- اماں بھی اب تو سویرے تڑکے ہی گھر سے نکل جاتی ہے- ایک اور گھر کا کام پکڑ لیا ہے تاکہ مسلمانوں کے برکت والے مہینے سے پہلے پہلے آٹا اور دالیں خرید کر رکھ لے- نہیں تو بھوکے مریں گے-
ماسٹر نورالزماں حیرت سے بچے کو دیکھنے لگے-
تو— تو تم اسکول کی فیس کا کیا کرو گے؟
وہ ماسٹر صاب گھر پر ہی جمع رکھوں گا- اماں کو دوں گا کہ وہ تھوڑا آرام کر لے-آٹے کا تھیلا میری فیس کے پیسوں سے لے آئے- بہت تھک جاتی ہے مگر آرام نہ ملتا اماں کو-
اچھا بیٹھو—!
آج اسکول سے واپسی پر ماسٹر نورالزمان گہری سوچ میں پڑے تھے- قدم گھر کی جانب اٹھتے اٹھتے مسجد کی جانب مڑ گئے-
امام صاحب کیا زکاۃ یا فطرے کی رقم کسی غیر مسلم کو دی جا سکتی ہے؟
نہیں ماسٹر صاحب نہیں- ہاں البتہ صدقات نافلہ غیر مسلم کو دئیے جا سکتے ہیں- اور صدقات تو گناہ ایسے بجھاتا ہے جیسے آگ پانی کو-
یعنی صدقات نافلہ سے مدد ہو سکتی ہے- مسجد سے نکل کر ماسٹر صاحب گھر روانہ ہوئے اور دن سے شام ہوئی شام سے رات، اور پھر فجر کا وقت آن پہنچا- سوچ کی سوئی وہیں اٹکی تھی کہ مسلمانوں کا با برکت مہینہ کیسے اشیاء خوردنی کو غریب لوگوں کی پہنچ سے دور کر دیتا ہے – اسلام کی روح کو نہ سمجھنے والا انسان اس کی کیسے تشریح کرتا ہے اور “برکت“ کا کیا معنی اخذ کرتا ہے-
اس مہینے کی آڑ میں مسلمان قوم کیسی بد عنوانیوں میں پڑ جاتی ہے- ایک عام آدمی رمضان میں خرید و فروخت سے ڈرتا ہے- ایک غریب شخص کے گھر میں آٹا خریدنے کی خاطر کتنی تنگی ہو جاتی ہے- دو وقت کی روٹی انسان کو گھن چکر بنا ڈالتی ہے-
ماسٹر صاحب نے اگلے ہی روز اپنے نفلی صدقے کی رقم سے یاسر مسیح کی فیس جمع کروائی- گھر میں جو کھانا بنا تھا وہ ایک ٹفن میں پیک کر کے یاسر مسیح کے دراوزے کے سامنے پہنچ کر دستک دی اور لفافہ سامنے رکھ دیا-
نو سالہ بچہ دروازے سے باہر نکلا، کوئی نہ تھا مگر ایک لفافہ رکھا ہوا تھا جس میں ٹفن اور ایک خط موجود تھا- اس نے دروازہ بند کیا- خط پڑھا- جس میں لکھا تھا کہ اس کے اسکول کی فیس جمع ہوگئی ہے اور کسی بھلے مانس نے ایک معمولی رقم یا سر کی ذہانت اور جماعت میں بہترین کارکردگی پر اس کے نام بھیجی ہے-
وہ بچہ ضرور تھا لیکن یہ لکھائی روزانہ اپنے ماسٹر نورالزمان کو بلیک بورڈ پر لکھتے دیکھتا تھا- وہ بھلا مانس کون تھا یہ لکھائی سے ہی پہچان گیا تھا- کچھ دیر بعد ہی دروازہ کھلا اور یاسر مسیح اسکول کا بستہ گلے میں ڈالے باہر نکلا- احتیاط سے گھر کو تالا لگایا اور چہرے پر مسکراہٹ لئیےاسکول کی جانب چل پڑا-
خط میں یہ بھی لکھا تھا کہ رمضان کریم ہر کسی کے لئیے برکت و احترام کا باعث ہے شرط یہ ہے تمام کام صرف اور صرف اس کی ذات کے لئیے کیے جائیں جس نے انسان کو تخلیق کیا- بھروسہ اسی پر ہو جس نے رزق دینے کا وعدہ کیا-
ماسٹر نورالزمان کچھ فاصلے پر کھڑے نو سالہ بچے کو مسکرا کر گلی سے باہر نکلتا دیکھ رہے تھے- کچھ روز میں ہی با برکت مہینہ شروع ہونے کو تھا- نیکیاں سمیٹنے کا وقت قریب آرہا تھا- نیکی یہ بھی ہے کہ ارد گرد، پڑوس میں کوئی بھوکا نہ رہے-