حالیہ دنوں چین کی جانب سے اپنی اہم ترین سالانہ سیاسی سرگرمی ”دو اجلاسوں” کے دوران کچھ نمایاں فیصلے اور سال 2023 کے اہم اہداف کا اعلان کیاگیا ہے جسے پاکستان سمیت دنیا بھر کے مختلف حلقوں نے سراہا ہے۔پاکستان کے تناظر میں چند اہم اقتصادی سماجی شعبہ جات ہیں جن میں چین سے سیکھا جا سکتا ہے اور اس میں فراہمی روزگار بھی شامل ہے۔چین نے اعلان کیا ہے کہ رواں سال 12 ملین شہری روزگار کے مواقع پیدا کیے جائیں گے جبکہ شہری بے روزگاری کی شرح کو تقریباً 5.5 فیصد تک محدود کیا جائے گا۔فراہمی روزگار کا یہ ہدف یقیناً چین جیسے بڑی آبادی والے ملک کے لیے کسی چیلنج سے کم نہیں، مگر اسے بہترین پالیسیوں کا تسلسل قرار دیا جا سکتا ہے جس پر عمل پیرا ہوتے ہوئے چین ہر سال روزگار کے نئے مواقع پیدا کر رہا ہے اور ہنرمند افراد کی صلاحیتوں سے بھرپور فائدہ اٹھا رہا ہے۔یہ امر قابل زکر ہے کہ چین نے 2022 ملک میں روزگار کے استحکام کو برقرار رکھا، شہری علاقوں میں 12.06 ملین ملازمتیں پیدا ہوئیں، جو طے شدہ 11 ملین کے سالانہ ہدف سے زیادہ ہیں۔ یہاں اس حقیقت کو بھی مد نظر رکھا جائے کہ مستحکم روزگار میں چین کی یہ کامیابیاں معاشی سست روی، وبائی صورتحال اور ایک پیچیدہ بیرونی ماحول کے پس منظر میں حاصل کی گئی ہیں۔اس ضمن میں فراہمی روزگار کی خاطر اقتصادی ترقی کی حمایت کی گئی، کاروباری اداروں کی مدد کی گئی، کاروباری اداروں کو مزید فروغ دیا گیا، تارکین وطن کارکنوں سمیت اہم گروہوں کے لیے معاون پالیسیاں ترتیب دی گئیں اور روزگار کے متلاشیوں کے لئے تربیت اور خدمات کو مضبوط بنایا گیا.
سال 2023 میں بھی چین کی کوشش ہے کہ” ایمپلائمنٹ فرسٹ پالیسی” کو مضبوط کیا جائے اور اقتصادی اور مالیاتی میدانوں میں روزگار کو فروغ دینے کے لئے کوششوں میں تیزی لائی جائے۔اس خاطر سروس سیکٹر، مائیکرو اور اسمال انٹرپرائزز اور سیلف ایمپلائمنٹ والے افراد کو مزید مدد فراہم کی جائے گی جن میں روزگار کی بڑی گنجائش موجود ہے۔کاروباری اسٹارٹ اپس کی حوصلہ افزائی اور غربت سے چھٹکارا حاصل کرنے والوں کی مدد کے لئے اقدامات تیز کیے جائیں گے، جبکہ اہم گروہوں اور صنعتوں کے لئے بڑے پیمانے پر تربیتی پروگرام چلائے جائیں گے۔ رواں سال چین میں نئے کالج گریجویٹس کی تعداد 11.58 ملین کی ایک نئی بلندی تک پہنچنے کی توقع ہے، جو پچھلے سال کے مقابلے میں تقریباً 08 لاکھ 20 ہزار زیادہ ہیں، یہی وجہ ہے کہ حکومت کالج گریجویٹس کے لیے روزگار کی فراہمی کو مسلسل بہتر بنا رہی ہے اور روزگار کی تلاش کو ”ایک اعلیٰ ترجیح” کے طور پر لیتے ہوئے معاون اقدامات کیے جا رہے ہیں۔اس چیلنج سے نمٹنے کی خاطر کاروباری اداروں میں فراہمی روزگار کی حوصلہ افزائی کے لئے سبسڈی بھی فراہم کی جائے گی۔سرکاری شعبے میں بھرتیوں کو مستحکم کرنے، خدمات اور تربیت میں اضافہ کرنے اور ملازمت کے حصول میں دشواری کا سامنا کرنے والے گریجویٹس کوذاتی امداد پیش کرنے کے لئے بھی کوششیں کی جائیں گی۔
فراہمی روزگار کے بعد پاکستان سے جڑا ہوا دوسرا موضوع تحفظ خوراک بھی ہے۔چین کی جانب سے سال 2023 کے لئے اناج کی پیداوار کا ہدف 650ملین ٹن سے زیادہ مقرر کیا گیا ہے۔ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ چین نے اناج کی پیداوار کا یہ ہدف مقرر کیا ہے بلکہ گزشتہ کئی سالوں سے ملک میں اناج کی سالانہ پیداوار 650ملین ٹن سے زائد چلی آ رہی ہے۔ عالمی سطح پر خوراک کے بحران کے باوجود چین نے مسلسل 19 سالوں سے زبردست فصل حاصل کی ہے۔ 2022 میں ملک کی اناج کی پیداوار 686.5 ملین ٹن کی ایک نئی ریکارڈ سطح پر پہنچ گئی، یہ لگاتار آٹھواں سال ہے جب چین کی اناج کی پیداوار 650ملین ٹن سے متجاوز رہی ہے۔چین صرف 120 ملین ہیکٹر قابل کاشت اراضی کے ساتھ 1.4 بلین آبادی کی خوراک کی ضروریات احسن طور پر پورا کر رہا ہے، دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ دنیا میں
مجموعی قابل کاشت اراضی کے محض 9 فیصد سے چین دنیا کی ایک چوتھائی خوراک پیدا کر رہا ہے۔اس کی اہم وجوہات میں پائیدار زرعی زمین کا استعمال اور جدید زرعی ٹیکنالوجی کا اطلاق ہے جس کی بدولت زرعی اجناس کی پیداوار میں نمایاں حد تک خودکفالت کی منزل حاصل کر لی گئی۔آج ملک بھر میں فصلوں کی بہتر پیداوار کے لیے جدید زرعی مشینری کے استعمال اورکاشتکاروں کی خوشحالی اور دیہی حیات کاری جیسے موضوعات کو نمایاں ترین توجہ حاصل ہے۔ ملک میں زرعی سائنسدانوں اور کسانوں کی بھی ہمیشہ حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ وہ اپنی اختراعی صلاحیتوں کا کھل کر اظہار کریں اور زرعی شعبے کو ترقی دیں۔ چین نے قومی اقتصادی و سماجی ترقی اور سال 2035 تک کے طویل المیعاد مقاصد کے لیے اپنے 14ویں پانچ سالہ منصوبے کے خاکے میں بھی غذائی تحفظ کی حکمت عملی کو شامل کیا ہے۔اس خاکے میں اناج کے مکمل تحفظ اور اہم زرعی مصنوعات کی فراہمی کو یقینی بنانے اور غذائی تحفظ سے متعلق قانون سازی کو فروغ دینے کی کوششوں کا مطالبہ کیا گیا ہے۔اس حوالے سے ملک نے 2021 میں خوراک کے زیاں کے خلاف قانون بھی منظور کیا، جس کا مقصد ایک طویل مدتی فریم ورک کی تشکیل ہے، جو قومی غذائی تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ناگزیر ہے۔چینی کسانوں اور زرعی ماہرین کی کوششوں کی بدولت ملک میں زرعی پیداوار کی مشینی، انٹیلی جنٹ اور سبز ترقی کو تیز رفتاری سے فروغ دیتے ہوئے غذائی تحفظ کے ساتھ ساتھ اعلیٰ معیار کی زرعی اور دیہی ترقی کو یقینی بنایا جا رہا ہے، زرعی مشینری و آلات اور زرعی میکانائزیشن کی بھرپور مدد سے بمپر فصلیں حاصل کی جا رہی ہیں جبکہ زرعی مصنوعات کی درآمدات و برآمدات کے حوالے سے بھی دنیا کے بڑے ترین ممالک میں شامل ہے۔چین کی زرعی جدت کاری کی کوششیں جہاں ملک میں چینی عوام کی خوراک کی ضروریات کو احسن انداز سے پورا کر رہی ہیں وہاں عالمی سطح پر بھی فوڈ سیکیورٹی میں نمایاں مدد مل رہی ہے جو دنیا سے بھوک کے خاتمے اور اقوام متحدہ کے پائیدار ترقیاتی ایجنڈے کی تکمیل میں ایک نمایاں خدمت ہے۔
اسی طرح پاکستان سے جڑا ایک اور اہم موضوع ماحولیاتی تحفظ بھی ہے کیونکہ پاکستان کا شمار موسمیاتی تبدیلی سے شدید متاثرہ ممالک میں کیا جاتا ہے اور پاکستان چین سے سیکھتے ہوئے اس ضمن میں بہتر اقدامات اپنا سکتا ہے۔ چین نیماحولیاتی تحفظ کو فروغ دینے کی کوششوں میں آلودگی کی روک تھام اور اس پر قابو پانے کے بھرپور اقدامات کیے ہیں۔ گزشتہ پانچ برسوں کے دوران شہروں میں 86.5 فیصد دنوں میں ہوا کا معیار اچھی یا بہترین سطح پر رہا اور عام طور پر سیاہ آلودہ آبی ذخائر کا خاتمہ کر دیا گیا ہے۔ ملک نے مٹی کی آلودگی کی روک تھام اور اس پر قابو پانے اور آلودہ مٹی کو بحال کرنے میں بھی پیش رفت کی ہے اور ٹھوس فضلے اور نئی قسم کی آلودگیوں سے نمٹنے میں بھی تیزی لائی ہے۔اسی طرح چین نے اہم ماحولیاتی نظام کے تحفظ اور بحالی کے لیے بڑے منصوبے شروع کیے ہیں، سبزہ زاروں، جنگلات، دریاؤں، جھیلوں اور ویٹ لینڈز کی قدرتی بحالی کو فروغ دیا گیا ہے۔آج ملک میں توانائی کا ایک نیا نظام تشکیل دیا جا رہا ہے، جس میں مینوفیکچرنگ سیکٹر کو اسمارٹ اور سبز پیداوار کی جانب لے جانا شامل ہے۔ قابل تجدید توانائی کی نصب شدہ صلاحیت 650 گیگا واٹ سے بڑھ کر 1200 گیگا واٹ سے زیادہ ہو چکی ہے، اور توانائی کی کھپت میں صاف توانائی کا حصہ مسلسل بڑھ رہا ہے۔ قدرتی گیس، ہائیڈرو پاور، نیوکلیئر پاور، ونڈ پاور اور سولر پاور جیسی صاف توانائی کی کھپت کو مسلسل ترقی دی جا رہی ہے۔سب سے اہم بات،چین نے ایک ترقی پزیر ملک کی حیثیت سے یہ ساری کامیابیاں حاصل کی ہیں، جس میں پاکستان سمیت دیگر ممالک کے لیے سیکھنے کے کئی پہلو مضمر ہیں۔