محبت میں گرفتار فرد کیا کرسکتا ہے، سوائے اس کے اس سمندر میں ڈوب جائے، اور اپنے آپ کو فنا کرلے۔ لکھنا میرے لیے محبت جیسا ہی ہے، مجھے لفظوں سے پیار ہے، اور میں اس محبت کے اظہار کے بہانے تلاش کرنے لگتا ہوں، کوئی موضوع، کوئی بات، کوئی واقعہ، کوئی قصہ، کوئی حادثہ، کوئی دل چیر دینے والی پھانس مجھے لکھنے پر اکساتی ہے اور پھر میں لفظوں کو آواز دیتا ہوں، کبھی کبھی یہ ناراض بھی ہوجاتے ہیں، میرے لاکھ بلانے پر نہیں آتے، اور کبھی کبھی یہ میرے دل کی منڈیر پر بیھٹے نغمے سناتے ہیں اور مجھے مجبور کرتے ہیں کہ میں ان سے کھیلوں، جب یہ کھیل شروع ہوتا ہے تو پھر کچھ ہوش نہیں رہتا، کہانی، قصہ، حادثہ، درد دل سب ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔
حالات جوں کے توں ہیں، کوئی خیر کی خبر نہیں، ایک اور لاش مل گئی ہے، ہماری سیاست میں لاشیں ہی رہ گئی ہیں، ہم اپنے مردے چوراہے پر لاکر ان پر سیاست کرتے ہیں، ایک کے بعد ایک ایسے واقعات بھی ہوتے رہتے ہیں، آج تک ایسے واقعات عدم تحقیق کے سبب تاریخ میں زندہ ہی رہتے ہیں۔ کبھی کبھی انصاف کے ترازو بھی برابر نہیں رہتے۔ ظلم کے قصے ہمیشہ یاد رہتے ہیں۔ الیکشن کب ہوں گے، کیسے ہوں گے، اور اس سے کیا نتیجہ برآمد ہوگا، اس بارے میں کسی کو کچھ نہیں بتا۔ ادارے اب کہاں ہیں، یہ نہ اپنا فیصلہ کرتے ہیں، اور نہ ہی کوئی کام ڈھنگ سے کرتے ہیں۔ کراچی کے بلدیاتی انتخابات کو ہوئے کتنا عرصہ گذر گیا۔ لیکن سوائے قانونی موشگافیوں ، بیانات، اعلانات کے کیا ہوا ہے، کراچی تباہ حال ہے، سڑکوں پر گندے پانی کا بہاؤ، مٹی کے ڈھیر، گڑھے، کھلے مین ہول، فٹ پاتھوں پر کچرے کے ڈھیر، غلاظت، گداگروں کے غول، تجاوزات، رانگ سائڈ ٹریفک، لوٹ مار، قتل، سب کچھ اس شہر میں ہورہا ہے، جانے کون لوگ ہیں، جو آرادم سے حکمرانی کی سیج پر بیٹھے ہیں، رات دن رشوت کا بازار گرم ہے۔ لیکن کسی کو توفیق نہیں کہ جرائم کرنے والوں سے باز پرس کرے۔
بلدیاتی انتخابات میں بلدیاتی انتخاب میں گیارہ یوسیزایسی تھیں، جن پر انتخابات نہیں ہوسکےتھے، اب تک ان نششتوں پر انتخابات کا اعلان ہی نہیں کیا گیا۔ ایک صرف جماعت اسلامی ہے، جو اس معاملے پر مسلسل احتجاج کر رہی ہے، جماعت اسلامی نے بلدیاتی انتخابات کا عمل مکمل نہ کرنے کے خلاف 17 مارچ کو کراچی جام کرنے کا اعلان کیا ہے۔ الیکشن کمیشن کے سامنے بھی مظاہرے ہو رہے ہیں۔ لیکن اب تک کراچی کے معاملات اسی طرح ہیں۔
کراچی پاکستان کی معیشت کا دل ہے، اگر یہ دل دھڑکنا بند کردے گا، تو ملک کی حالت خطرے میں پڑ جاتئے گی۔ اب حکومت کے اہلکاروں پر عوام اور تاجروں کا اعتبار ختم ہوگیا ہے۔ شائد اسی لیے ہمارے وزیر خزانہ کو بڑے تاجروںِ صنعت کاروں اور سرمایہ کاروں سے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی موجودگی میں ملاقات کرنی پڑی۔ اس ملاقات کا بہت چرچا ہے۔ ملاقات میں معاشی بے چینی، بداعتمادی اور سیاسی عدم استحکام جیسے موضوعات پر کھل کر بات چیت ہوئی ہے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈارکی باتوں پر اب تاجر اعتماد نہیں کرتے، ان کے دعووں پر اب تاجر برادری کم ہی اعتبار کرتی ہے۔ انھوں نے ایک بار پھر تاجر برادری کو آئی ایم ایف کے ساتھ پروگرام ٹریک پر لانے کے ساتھ ساتھ دوست ممالک کے تعاون اور مستقل کے متوقع معاشی منظر نامے میں رنگ بھرے ہیں۔
سیاسی عدم استحکام اور سیاسی معاملات سے لے کر معاشی معاملات تک اب لوگ فوج ہی کی طرف امدید بھری نظروں سے دیکھتے ہیں۔ گوفوج یہ فیصلہ کرچکی ہے کہ اب کسی طور پر سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کی جائے گی لہٰذا سیاستدانوں کو اپنے سیاسی معاملات خود حل کرنا چائییے ۔ لیکن اس کے باوجود فوجی قیادت کو اس تنگنائے میں لایا جارہا ہے۔
کہا جارہا ہے کہ آرمی چیف نے بزنس کمیونٹی کو پیغام دیا ہے کہ مسائل ضرور ہیں مگر پاکستان میں سب برا نہیں ہے، مل کر ملک کو مسائل سے نکالیں گے اور آخر تک لڑیں گے۔ تاجربرادری سے بھی کہا گیا ہے کہ وہ ملک کو درپیش معاشی صورتحال سے نکالنے میں اپنا بھرپورکردار ادا کریں مشکلات ضرور آتی ہیں لیکن ہر مشکل کے بعد آسانی بھی آتی ہے پاکستان نے ماضی میں بھی بڑی بڑی مشکلات کا سامنا کیا ہے اور ان مشکلات سے کامیاب ہوکر نکلا ہے ان شاء اللہ ہم اس مشکل سے بھی نکل جائیں گے۔ دوست ممالک خاص کر چین اور عرب ممالک کی جانب سے بھی پاکستان کی امداد لی خوش خبری سنائی جارہی ہیں۔
لیکن اصل مسئلہ سیاسی عدم استحکام ہے۔ عوام اور تاجر برادری کو موجودہ حکومت پر اعتماد نہیں ہے، پاکستان کے معاشی استحکام کے لیے بھی ضروری ہے کہ ایک قابل اعتماد مستحکام حکومت قائم ہو، جس پر سب کو پورا اعتماد ہو، بیرونی دنیا اور ہمارے دوست ممالک بھی اسی وقت ہماری مدد کریں گے، جب یہاں ایک ایسے قیادت موجود ہو، جس سے بات چیت اور وعدے وعید کیے جاسکیں۔
اب رمضان کا مہینہ سر پر ہے، اس ماہ میں ہمارے تاجر جی بھر کر عوام کو لوٹتے ہیں، مہنگائی اپنے عروج پر ہوتی ہے، عوام کو اس بار سادگی کے ساتھ ساتھ ایک اتحاد کی بھی ضرورت ہے، یوں بھی روزہ نفسس کی پابندی اور صبر کا پیغام دیتا ہے، عوام کو چاہیئے کہ وہ مہنگی اشیاء کا بائیکاٹ کریں۔ اجتماعی طور پر سستے بازار لگائیں، رفاعی، اور امدادی تنظیمیں بھی روزہ کشائی کے نمائشی کاموں کو ترک کرکے، سفید پوش طبقے اور ضرورت مند لوگوں تک خاموشی سے امداد پہنچائیں، گداگروں کو خیرات دینے کا کلچر ختم کریں، اپنے آس پاس ضرورت مند افراد اور مستحق افراد کا کھوج لگائیں، ان کی فہرست بنائیں، ان کی مدد کریں، اس کام میں محنت تو لگے گی، لیکن کرنے کا اصل کام بھی یہی ہے۔
ہمیں ایک غضب ناک نسل چاہیئے
جو تاریخ کا دھارا بدل دے
جو اتحاد میں کامل ہو
جو ظالم حکمرانوں کو مزہ چکھا دے
قیادت کرنے والی پیش قدمی کرنے والی۔