کوئی جو مجھ سے پوچھے اگر، کہ ! ایک خاتون کی زندگی کیسی ہونی چاہیے؟ تو میں کہوں کہ مثلِ فاطمہ رضی اللہ عنہا۔
کوئی مجھ سے پوچھے اگر، کہ ! ایک بیٹی کو کیسا ہونا چاہیے؟ تو میں کہوں کہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی بیٹی جو ماں کا دست و بازو ہو، وہ جو محمد ﷺ کی بیٹی فاطمہ جیسی ہو، جو سیرت و کردار میں عادت و اطوار میں ان کی طرح ہو جو ساری دنیا کے لیے نمونہ کامل بن کرآئے۔
کوئی مجھے سے پوچھے اگر، کہ ! بیوی کیسی ہو؟ تو میں عرض کروں کہ شیر خدا اور حیدر کرار حضرت علی کی زوجہ فاطمہ رضی اللہ عنہا جیسی کہ جو چکی بھی پیستی ، جھاڑو بھی دیتی، غرض کہ امور خانہ داری کے تمام فرائض انجام دیتی ہے جب کہ دو جہانوں کے سردار کی وہ دختر نیک اختر ہے جسے جنت میں خواتین کا سردار بھی ہونا ہے۔
اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ ! ایک بیٹی کو دنیا کے مال و متاع کی کتنی پروا ہونی چاہیے؟ تو میں کہوں کہ فاطمہ کا جہیز دیکھ لو۔ اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ ! بیٹی کی شادی کیسی ہونی چاہیے؟ تو میں کہوں کہ کیا تم نے حضرت فاطمہ کی شادی جو کہ امی عائشہ کے بقول سب سے بہتر شادی تھی،کے بارے میں نہیں پڑھا۔
اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ! عورت کے طور طریق کی خوبی کیا ہونی چاہیے؟ تو میں پھر عرض کروں کہ امی عائشہ فرماتی ہیں کہ انھوں نے اخلاق، کردار، گفتگو، لب و لہجہ، رفتار اور نشست و برخاست میں نبی ﷺ کے مشابہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے زیادہ کسی کو نہیں دیکھا۔
کوئی مجھ سے پوچھے کہ صدق و سچائی میں عورت کا مرتبہ کیا ہونا چاہیے؟ تو میں پھر عرض کروں کہ امی عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ انھوں نے آپ ﷺ کے سوا فاطمہ رضی اللہ عنہا سے زیادہ سچا اور صاف گو کسی کو نہیں دیکھا۔ اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ ایک عورت تعلق باللہ کا فیض کہاں سے حاصل کرے؟ تو میں کہوں کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی زندگی کو دیکھو اور عمل کرو کہ وہ دائم الصوم تھیں، قائم الیل تھیں، گھر کے کام کاج کرتے وقت بھی قرآن پڑھتی رہتیں تھیں۔
اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ عورت کو علم و فضل میں کیسا ہونا چاہئے؟ تو میں اسے بتاوں کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا، تفقہ فی الدین سے کلی طور پر بہرہ ور تھیں۔ کوئی مجھ سے پوچھے کہ ایک عورت کی قناعت کیسی ہونی چاہیے؟ تو میں اسے بتاوں کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ہاتھوں میں چکی پیستے پیستے آبلے پڑ گئے تھے اور چولھا پھونکتے پھونکتے چہرے کا رنگ متغیر ہوگیا تھا، لیکن ایک لونڈی کے لیے آپ ﷺ کے سامنے مدعا عرض نہ کرسکیں۔ اور اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ ایک عورت کو ایثار و سخاوت میں کیسا ہونا چاہیے ؟ تو میں اسے بتاوں گی کہ اس وقت جب حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اور ان کے بچے بھوکے تھے تب بھی وہ اپنی چادر کسی دوسرے مسلمان کی بھوک مٹانے کے لیے دے کر ، شمعون یہودی کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتی ہیں۔
اور اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ عورت کو شرم و حیا میں کیسا ہونا چاہیے ؟ تو میں اسے کہوں گی حضرت فاطمہ نے نابینا صحابی سے بھی پردہ کیا تھا۔ اور اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ ایک عورت کا رشتے داروں سے سلوک کیسا ہونا چاہیے؟ تو میں اسے یاد دلاوں گی کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی ساس فاطمہ بنت اسد فرماتی تھیں کہ! جس قدر فاطمہ نے میری خدمت کی ہے شاید ہی کسی اور بہو نے کی ہو۔
غرض کہ آپ رضی اللہ عنہا کی زندگی کا کوئی پہلو ایسا ہے ہی نہیں، جو لائق تقلید اور باعث تربیت نہ ہو۔لہذا جب بھی کوئی پوچھے عورت کی کل زندگی کیسی ہونی چاہیے تو بلا جھجھک کہہ دینا، مثلِ فاطمہ رضی اللہ عنہا ، اور کوئی پوچھے کہ کیسی بننا چاہتی ہو؟ تو فورا کہہ دینا میں مثلِ فاطمہ رضی اللہ عنہا۔
جی ہاں تربیتی کردار کے حوالے سے اس دم توڑتے اور نزع کی ہچکیاں لیتے ہوئے معاشرے کو ضرورت ہے کہ میں اور آپ، ہر بہو، بیٹی، ماں اور بہن مثلِ فاطمہ بنے تاکہ ایک اعلیٰ اخلاقی قدروں پر اسلامی معاشرہ وجود میں آسکے۔
مزرع تسلیم را حاصل بتول
مادران را اسوہ کامل بتول