اپنے زمانہ طالب علمی میں ایک انگریزی نظم پڑھی تھی “The Neem Tree”جس میں شاعر نے بڑی خوبصورتی سے یہ بات سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ نیم کے درخت کا سایہ کتنا گھنا ہوتا ہے اور اس کی چھاؤں کیسی ٹھنڈی ہوتی ہے وہ خود تو دھوپ کی تمازت برداشت کرتا ہے مگر اپنے سائے میں بیٹھنے والوں کو سکون فراہم کرتا ہے اس کو اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ اس کے نیچے بیٹھنے والوں میں اس کے اپنے ہیں یا پرائے، دوست ہیں یا دشمن، بچے ہیں، بوڑھے ہیں یا جوان وہ ہر ایک پر سایہ فگن رہتا ہے۔ ہماری زندگی میں بھی بہت سے لوگ ایسے ہیں جو نیم کے درخت کی طرح شجر سایہ دار ہیں ،جن کی چھاؤں میں ہم سکون و اطمینان محسوس کرتے ہیں۔
یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ باپ ہی وہ ہستی ہے جو اپنے بچوں کی اچھی تعلیم و تربیت کی خاطر انتھک محنت کرتا ہے۔ اپنا “حال” خراب کرتا ہے تاکہ بچوں کا “مستقبل” بہتر بنا سکے اپنی ضروریات کو پس پشت ڈال کر بچوں کی خواہشات کو پورا کرنے میں جوانی سے بڑھاپے تک کا مشکل سفر ہنسی خوشی طےکرتا ہے اسے نہ ستائش کی تمنا ہوتی ہے نہ ہی صلے کی آرزو، وہ تو بس اپنے بچوں کو زمانے کے سرد و گرم اور وقت و حالات کی چلچلاتی دھوپ سے بچانے کے لیے کھڑا رہتا ہے۔ جن بچوں کے سروں سے والد کا سایہ اٹھ جاتا ہے ان کے نازک کاندھوں پر ذمہ داری کا بوجھ ان سے ان کا بچپن چھین لیتا ہے۔
باپ اگر گھر کی چھت ہے تو ماں کی اہمیت گھر کی بنیاد جیسی ہے اگر بنیاد نہ رہے تو در و دیوار سمیت چھت بھی ڈھے جاتی ہے بالکل اسی طرح اگر کسی کی ماں نہ رہے تو وہ بھی اپنے آپ کو بے آب و گیاہ صحرا میں بھٹکتا ہوا محسوس کرتا ہے۔ جس طرح مرغی کے بچے اپنی ماں کے پروں میں خود کو محفوظ سمجھتے ہیں اسی طرح ماں کی آغوش بھی اولاد کے لیے جائے پناہ ہوتی ہے اولاد ایک ہو یا دس فرماں بردار ہو یا نا فرمان ماں کسی کو بھی اپنے سائے سے محروم نہیں رکھتی اس کی محبت کا دریا یکساں سب بچوں کو سیراب کرتا ہے۔
کسی نے ٹھیک ہی کہا ہے،،،
ماں جیسی ہستی دنیا میں کہاں
نہیں ملے گا بدل ڈھونڈ لو سارا جہاں
جب یہ شجر سایہ دار دنیا سے رخصت ہوتے ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ کتنا بڑا سانحہ ہو گیا۔ جن کے سروں سے والدہ کا سایہ اٹھ جاتا ہے وہ بچے ناز نخرے نہیں دکھاتے کیونکہ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ اگر وہ روٹھیں گے تو انہیں کوئی منانے والا نہیں، وہ دیر سے گھر آئیں تو چپکے سے کوئی دروازہ کھولنے والا نہیں، وہ گھر سے باہر نکلیں تو زمانے کی دھوپ سے بچنے کے لئے دعاؤں کی چھتری کے سپرد کرنے والا کوئی نہیں۔ دعا ہے کہ رب کائنات ہر بچے پر اس کے والدین کا سایہ سلامت رکھے آمین۔
والدین کی حیثیت تو مسلم ہے کہ اس دنیا میں ان کا کوئی نعم البدل نہیں لیکن بعض ایسی ہستیاں بھی ہماری زندگی میں ہوتی ہیں جو قدم قدم پر ہماری رہنمائی کرتی ہیں اور ہمارے لیے خیر اور آسانیاں فراہم کرتی ہیں خواہ وہ بڑے بھائی، بڑی بہن یا پھر اساتذہ کرام کی صورت میں ہوں۔
بڑے بھائیوں کے بارے میں تو یہ کہا جاتا ہے کہ وہ باپ کا عکس ہوتے ہیں جب کہ بڑی بہن ماں کا عکس ہوتی ہے بہت سے ایسے گھرانے نظروں سے گزرے ہیں جن میں بڑے بھائی، بہن اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کا مستقبل بہتر بنانے کے لئے اپنا مستقبل داؤ پر لگا دیتے ہیں۔
اساتذہ جو کہ علم کا سمندر ہوتے ہیں وہ اپنے طالب علموں تک صرف اپنا علم منتقل نہیں کرتے بلکہ روحانی باپ ہونے کے ناطے وہ ان کی تربیت میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں اور یہ ایک حقیقت ہے کہ والدین کے بعد بچے سب سے زیادہ اپنے اساتذہ سے ہی متاثر ہوتے ہیں گو کہ معاشرہ جس تیزی سے زوال کا شکار ہو رہا ہے اس میں طالب علموں کے ساتھ ساتھ ایسے اساتذہ کرام کی بھی کمی ہوتی جارہی ہے جو کہ تعلیم و تدریس کو مقدس فریضہ سمجھتے ہوئے سر انجام دیں لیکن اب بھی چند ایسے گوہر نایاب موجود ہیں جو اپنے علم سے ایک عالم کو فیض یاب کر رہے ہیں۔ یہ تمام ہستیاں انتہائی قابل احترام ہیں اللہ سب کے سروں پر ان کا سایہ تادیر سلامت رکھے۔
ہمیں بھی چاہیے کہ ہم اپنی اپنی جگہ نیم کے درخت کی طرح شجر سایہ دار بننے کی کوشش کریں اور جہاں تک ممکن ہوسکے اپنی ذات سے لوگوں میں خیر و بھلائی بانٹنے کا سبب بنیں ۔