آج میرے جگری یار اسفند یار سے بیس سالوں کے بعد میری ملاقات ہورہی تھی ہم دونوں کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہ تھا اسکول سے لیکر یونیورسٹی تک ہماری یاری رہی۔ ان بیس سالوں میں کوئی خاص تبدیلی اسکی شخصیت میں نہیں آئی تھی بس کنپٹی کے بال تھوڑے سفید ہوگئے تھے جسم جو پہلے چھریرا تھا اب قدرے بھرا بھرا ہوگیا تھا اور چہرے پر عینک کا اضافہ ہوگیا تھا جو اسکی شخصیت کو مزید پرکشش اور پروقار بنارہا تھا۔ انکھوں میں ذہانت اور چہرے پر چمک ویسی ہی تھی جیسے بیس سال پہلے تھی۔
جب میں نےاپنے سراپے پر نظر ڈالی تو میں کچھ شرمندہ سا ہوگیا میرا وزن قدرے ںڑھ چکا تھا توند باہر نکل ائی تھی اور ماتھے کے بال اڑچکے تھے اور چہرے پر تھکن کے آثار واضح تھے۔ بیس سال پہلے تعلیم مکمل کرنے کے بعد ایک دوست کی کوششوں سے امریکہ کا ویزہ لگ گیا اور پھر وہاں کی تیز رفتار زندگی اور اسکی آسائشات اور بیوی بچوں میں ایسا کھویا کہ پیچھے پلٹ کر دیکھنے کی فرصت ہی نہ ملی حتیٰ کہ ماں باپ کی وفات پر بھی نہ جاسکا جس کا قلق ساری زندگی میرے ساتھ رہے گا۔
اب جبکہ عمر کی پینتالیس بہاریں گزارنے کے بعد زندگی سیٹ ہوگئی اور کچھ سکون میسر آیا تو وطن اور اس سے جڑی ہر چیز کی یاد ستانے لگی اور آ ج میں اس سرزمین پر کھڑا تھا جسے بیس سال پہلے اپنے کیرئیر کیلئے چھوڑ گیا تھا۔ اسفند یار سے ملاقات اور اسکی زندگی کے مقصد کو جان کر اور اسکا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرکے مجھے اپنا آپ بہت چھوٹا محسوس ہوا۔ اسفند نے بتایا کہ ایم بی اے مکمل کرنے کے بعد اسے کئی مواقع ملے باہر جانے کو مگر اس نے اپنے وطن میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا وہ ہمیشہ کہا کرتا تھا کہ یار تم نے کبھی بلندی پر پرواز کرتے شاہین کو دیکھا ہے اس میں لیڈرانہ صفات ہوتی ہیں ۔ اسکے پنجے تیز گرفت مضبوط پرواز اور اڑان ہمیشہ بلندی کی طرف ہوتی ہے وہ اتنا خوددار ہوتا ہے کہ مردار نہیں کھاتا اپنا شکار خود کرتا ہے اور اپنا کوئی مخصوص ٹھکانا نہیں بناتا کائنات کی بسیط فضائیں اسکا گھر ہوتی ہیں اور اسکے مقابلے میں گدھ کو دیکھو اسکی ساری خصوصیات شاہین سے متضاد ہوتی ہیں۔ وہ کہتا یار مجھ سمیت اس ملک کے نوجوانوں کو شاعر مشرق کا شاہینی کردار بننا ہے اور اس دین و وطن کو پوری دنیا میں سربلند کرنا ہے وہ پورے جوش وجذبے اور سچی لگن کے ساتھ یہ باتیں کیا کرتااور میں اسکا وقتی جوش سمجھ کر اسکا مذاق اڑاتا-
مگر آ ج اسے دیکھ کر مجھے اسکی باتوں پر یقین آگیا۔ اس نے بندہ خاکی کو بندہ آفاقی بنانے کا جو بیڑہ اٹھایا تھا اس کو سچ کر دکھایا۔ وہ ایک کامیاب موٹیویٹر کئی کتابوں کا مصنف سوشل ورکر اور نوجوانوں کی ایک دینی فلاحی ادارے کا بانی وممبر تھا اس ادارے کا مقصد نوجوانوں کو ان کے مقصد حیات کی طرف رہنمائی کرنا ان کی تربیت کرنا اور اپنے پیروں پر کھڑا ہونا سکھا کر ان کو دین وملت کیلئے فعال شہری بنانا تھا۔
باطل اور استعماری وطاغوتی قوتوں کی پہچان کراکے ان کے آ گے ڈٹ کے کھڑا ہونا علم وتحقیق کے میدان کا شاہین بنانا تھا۔ سو وہ اپنے مقصد میں کامیابی کی منازل طے کرتے ہوئے عقابی پرواز بھرتے ہوئے آسمان کی بلندیوں پر اوپر ہی اوپر محو پرواز تھا۔ اور ، اور میں، شرمندہ تھا کہ میں تو گدھ کی طرح ساری زندگی پیٹ کا پجاری صرف اپنے ہی مفادات کا اسیر بنارہا۔ تیزی سے ختم ہوتی عمر کی نقدی اب سود و زیاں کا حساب لگانے کو ناکافی تھی۔