اسلام کے خلاف سازش اہل یہود کا کوئی انوکھا کام نہیں بلکہ انکی قبیح حرکتیں ہمیشہ سے آ رہی ہیں روز اول سے ہی نت نئے طریقوں سے اسلام کی جڑوں کھوکھلا کرنے کے اوچھے ہتھکنڈے آزماتا آ رہا ہے ان یہودیوں کا سب سے بڑا ہتھیار عریانی اور فحاشی کو فروغ دینا ہے اس کے لئے خاطر خواہ فنڈنگ بھی کر رہے ہیں چناچہ اسلام آباد کی کامسیٹس یونیورسٹی میں انگلش کے پرچے میں حیا باختگی کی انتہا ہو گئی مسلم معاشرے میں بے حیائی کی ترغیب پر مبنی پرچہ منظر عام پر آ گیا عذاب در غداب میں گری ہوئی قوم اب آ سمان سے پتھر برسانے پر تلی ہوئی ہے یا بندر اور خنزیر بننے کی خواہشمند ہے۔
یہ ہے ہمارا تعلیمی معیار، یہ ہے ہمارے ٹاپ یونیورسٹیوں کی ذہنیت، یہ ہے ہمارے نام نہاد پروفیسرز کی ذہنیت اور ان کی غلیظ سوچ پاکستان کے ٹاپ کلاس تعلیمی ادارے یہاں صرف بے حیائی کا درس ہی نہیں دیا جاتا بلکہ بے حیائی کے سیکڑوں واقعات ملتے ہیں۔اس سے پہلے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے انگریزی پرچے میں کچھ اسی قسم کا سوال تھا ، کنیرڈ کالج میں پچھلے سال ایک ایسے ہی موضوع پر مباحثے کا انعقاد کیا گیا ۔ جس میں کالج کی لڑکیوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔ جب کسی نے اعتراض اٹھایا تو کہا گیا کہ ہم تومعاشرے میں برائی کی نشاندہی کررہے ہیں ۔معاشرے کی برائیوں کی نشان دہی ہے یا کسی بھی واقعے یا تعلق کو معاشرہ میں پھیلانے کی ایک سازش! مان لیجیے کہ اب یہ موضوعات آپ کی تعلیم گاہوں میں کھلے عام ڈسکس ہوتے ہیں ۔
غیر محرم کے ساتھ بغیر نکاح کے تعلق رکھنا حرام ہے لیکن صاحب یہاں تو محرم کے ساتھ بے ہودگی کا درس دیا جارہا ہے زیرِ نظر پرچہ اور سوال شاید یورپ اور اس کے علاوہ ازاد خیال انگلش ملکوں کے تعلیمی اداروں کے پرچوں میں بھی نہیں دیا جاتا ہوگا جو میرے اسلامی جمہوری پاکستان میں دیے جارہے ہیں. کیا ذہنیت اور کیسی تربیت ہوگی ایسے اسٹوڈنٹس کی جو ایسے پروفیسر سے پڑھتے ہیں۔ ایسے سوالات کے خوب جوبات دیتے ہیں۔
یہ پہلی بار نہیں اس طرح کے سوالات پہلے بھی کافی سکولز اور یونیورسٹیاں اپنے پرچوں میں دے چکے ہیں. زیرِ بحث پیپر میں گورے کے روپ میں ایک بہن بھائی کا وہ حال پیش کیا گیا ہے جو یورپ میں دو غیر محرم کا ہوتا ہے۔
اب جو اقدامات کرنے کے ہیں وہ مقتدر اور بااثر حلقوں کا کا ہے کہ وہ مل بیٹھیں، کوئی تھنک ٹینک بنائیں، اس کا مستقل حل سوچیں، عدالت جائیں، ذمہ دار تک پہنچیں، جب اس مسئلے کا کوئی حل نکل آئے تو دکھیاری غم کی ماری عوام کو نوید جاں گداز سنائیں کہ ہم اہل کرم نے یہ اپنی ذمہ داری اور فرض شناسی یوں اور یوں نبھائی ہے۔ اب کے بعد کوئی شوقین ہمارے عقیدے، تہذیب، اور روایات کے ساتھ چھیڑ خانیاں نہیں کرے گا۔ لیکن غم والی بات یہ کہ وہ تو اپنی اپنی حکومتیں بنانے کے چکر میں ہے۔
میرا ایک ایجوکیشنسٹ اور صحافی ہونے کے ناطے ہائیر ایجوکیشن کمیشن سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ یونیورسٹیوں اور کالجز میں انگریزی ادب کے نصاب پر نظر ثانی کی جائے اور نصاب نئے سرے سے مرتب کیا جائے ۔ کیا آپ اس آواز میں میرا ساتھ دیں گے ؟ تاکہ اپنی نسل کو ان تعلیمی غلاظتوں سے بچا سکیں.
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں یہود
یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود