جی ہاں،یہ حقیقت ہے کہ چین میں حیرت انگیز طور پر2022 کے اختتام تک، ملک کے جامع ٹرانسپورٹ نیٹ ورک کی کل لمبائی ساٹھ لاکھ کلومیٹر سے تجاوز کر گئی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ تاریخی اعتبار سے نقل و حمل کی بہتری نے طویل عرصے سے لوگوں کی زندگی اور معاش، اقتصادی و سماجی ترقی اور بین الاقوامی تبادلوں میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عہد حاضر میں ہر ملک کی کوشش ہے کہ نقل و حمل میں پائیداری کو یقینی بناتے ہوئے آگے بڑھا جائے۔یہاں اس حقیقت کا ادراک بھی لازم ہے کہ کم ترقی یافتہ دنیا میں کمزور انفراسٹرکچر کا مسئلہ بدستور درپیش ہے، جہاں نقل و حمل کے ناقص بنیادی ڈھانچے کے باعث لوگوں کو خدمات کی فراہمی اور نقل و حرکت میں رکاوٹ کا سامنا ہے، اس سے مختلف ممالک میں غربت اور عدم مساوات سمیت دیگر سماجی مسائل پیدا ہوئے ہیں۔لہذا پائیدار اور لچکدار ٹرانسپورٹ انفراسٹرکچر کی فوری ضرورت دنیا بھر میں محسوس کی گئی ہے۔
درحقیقت مضبوط نقل و حمل وہ ذرائع ہوتے ہیں جو ترقیاتی عوامل کو آپس میں مربوط کرتے ہیں اور ملک کی ترقی و خوشحالی کی عمدہ ترجمانی بھی کرتے ہیں۔چین کے مختلف شہروں کے دورے کے دوران اس چیز کو بخوبی محسوس کیا جا سکتا ہے کہ یہاں ہر گزرتے لمحے عوام کے لیے سفری سہولیات کو زبردست وسعت اور ترقی مل رہی ہے اور ذرائع نقل و حمل کی مستقل بہتری کو ملک کی مجموعی ترقیاتی منصوبہ بندی میں کلیدی اہمیت حاصل ہو چکی ہے۔ چین کی جانب سے ترقی کو فروغ دینے کے لئے نقل و حمل کے نیٹ ورک کو مسلسل وسعت دی جا رہی ہے اور ملک نے گزشتہ پانچ سالوں میں اپنے ٹرانسپورٹ انفراسٹرکچر نیٹ ورک اور ٹرانسپورٹ سروسز کو بہتر بنانے میں قابل ذکر کامیابیاں حاصل کی ہیں، اور مستقبل میں ایک جامع نقل و حمل کے نظام کی تعمیر کو آگے بڑھانے کے لیے کوشاں ہے۔
یہ امر قابل تحسین ہے کہ 2018 تا 2022 کی مدت کے دوران، چین نے دنیا کے سب سے بڑے ہائی اسپیڈ ریلوے اور ایکسپریس وے نیٹ ورک کے ساتھ ساتھ عالمی معیار کا پورٹ کلسٹر بھی تعمیر کیا ہے۔اس عرصے کے دوران ملک کے ٹرانسپورٹ سسٹم میں فکسڈ اثاثوں کی سرمایہ کاری تقریباً 2.46 ٹریلین امریکی ڈالر سے تجاوز کر گئی ہے۔ریلوے نیٹ ورک کی آپریٹنگ مائلیج 01 لاکھ 55 ہزار کلومیٹر تک پہنچ گئی ہے، جس میں سے ہائی اسپیڈ ریلوے نیٹ ورک کی لمبائی 42 ہزارکلومیٹر ہو چکی ہے۔ 2022 کے آخر تک ملک میں شاہراہوں کا نیٹ ورک پچاس لاکھ کلومیٹر سے زائد ہو چکا ہے، جن میں سے ایکسپریس ویز کی لمبائی 01 لاکھ 77 ہزارکلومیٹر ہے۔اسی طرح ملک بھر میں موجود ہوائی اڈوں کی تعداد بھی 254 ہو چکی ہے۔یہ ٹرانسپورٹ نیٹ ورک کے کمالات ہی ہیں کہ چین گزشتہ برس مسافروں اور مال بردار ٹرن اووراور ڈاک اور ایکسپریس ترسیل حجم کے اعتبار سے دنیا میں سرفہرست رہا ہے.
آج چین اپنے نقل و حمل کے شعبے کی اعلیٰ معیار کی ترقی کو فروغ دے رہا ہے، ملک کی سبز اور کم کاربن تبدیلی کو گہرا کر رہا ہے، اور اپنے کاروباری ماحول کو بہتر بنا رہا ہے۔ ان میں ذرائع نقل و حمل کی اسمارٹ ترقی بھی شامل ہے جس سے نہ صرف شہری نقل و حمل کے نظام کی اعلیٰ معیار کی ترقی میں مدد مل رہی ہے بلکہ یہ جدید، سمارٹ شہروں کی تعمیر میں بھی مددگار ہے۔اس ضمن میں یہ منصوبہ بندی کی گئی ہے کہ سینسنگ، اینالیسس، کنٹرول اور مواصلاتی ٹیکنالوجیز سے آراستہ ایک ذہین نقل و حمل نظام کا اطلاق کیا جائے تاکہ سفری سہولیات میں حفاظت، نقل و حرکت اور کارکردگی کو بہتر بنایا جا سکے۔ اس ضمن میں معاون حکومتی پالیسیوں کی بدولت بیجنگ اور شنگھائی جیسے بڑے شہروں کے ساتھ ساتھ کئی دیگر مقامات پر خودکار ڈرائیونگ اور وہیکل۔روڈ کوآرڈینیشن پائلٹ منصوبے تشکیل دیے گئے ہیں۔انفارمیشن اور مواصلاتی ٹیکنالوجیز جیسا کہ فائیو جی، انٹرنیٹ آف تھنگس کی مدد سے کئی شہروں میں بغیر پائلٹ بسوں نے کام بھی شروع کر دیا ہے۔یوں نئی ٹیکنالوجیز اور شہری پبلک ٹرانسپورٹ کو مربوط کیا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے بہت ساری نئی اختراعات ہوئی ہیں۔
علاوہ ازیں،چین بیرونی ممالک کے ساتھ بھی اپنے تعاون کو مضبوط بنا رہا ہے، چین یورپ مال بردار ٹرینیں اس وقت یورپ کے 25 ممالک کے 200 سے زیادہ شہروں تک پہنچ رہی ہیں، اور شپنگ خدمات اب بیلٹ اینڈ روڈ کے ساتھ تمام ساحلی ممالک کا احاطہ کرتی ہیں۔چین کی وزارت ٹرانسپورٹ ملک کو ٹرانسپورٹ پاور ہاؤس میں تبدیل کرنے، موثر سرمایہ کاری میں اضافے، کھلی ٹرانسپورٹ مارکیٹ کی ترقی کو تیز کرنے اور عالمی نقل و حمل تعاون کو فروغ دینے کے لئے پانچ سالہ ایکشن پلان تشکیل پر عمل درآمد کرے گی، جو وبا کی وجہ سے سست عالمی نمو کے تناظر میں معاشی بحالی کو بڑھانے میں بھی یقیناً مدد دے سکتا ہے۔