نسلوں کی تعمیر میں تعلیمی اداروں کا اہم کردار ہوتا ہے۔ یہی ذہن سازی اور تعمیر افکار کی پہلی سیڑھی ہوتی ہے۔ اگر ذہن میں مغربی افکار کی آبیاری ہوگی تو ایسے نوجوان اسلامی معاشرے کی تعمیر میں کوئی کردار ادا نہیں کر سکتے بلکہ وہ اسے غیر اہم سمجھ کر اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی سے نکال باہر کریں گے۔ جب تک ہماری بنیادیں مضبوط نہیں ہونگی۔ تب تک ہماری نسلیں کٹی پتنگوں کی طرح ادھر ادھر بھٹکتے رہیں گے ۔
حالیہ دنوں ایک پرچہ وائرل ہوا ہے جو کامسیٹس یونیورسٹی کے انگریزی ڈیپارٹمنٹ کا ہے۔ پرچے میں جو سوال درج ہےکہ جس میں دو کردار بہن اور بھائی کی آپس میں شادی کو ڈسکس کروایا جارہا ہے۔ یہ سوال ایساہے کہ جس سے قوم کا سر شرم سے جھکا گیا ہے۔ اگرچہ یونیورسٹی نے اس لیکچرر کو یونیورسٹی سے فارغ کردیا۔
ایک اسلامی ملک میں امتحانی پرچے میں ایسا سوال کا آنا بہت سے سوال چھوڑ گیا،
آیا یہ کہ ایسے سوالات پر کتنا پڑھایا گیا۔ ڈسکس ہوا ؟
اس پر طالبہ و طالبات نے سوچا ؟ سمجھا ؟
پرچے میں سوال کا انا ایک انفرادی عمل نہیں۔ بلکہ اس کے پیچھے پورا اسٹاف شامل ہے۔ صرف لیکچرار کو فارغ کرنا مسئلے کا حل نہیں۔
وقت نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ انگریزی لٹریچر فحش و بے ہودگی کا منبع ہے۔ جو آذادی کے نام پر ہر تعلق کو جائز قرار دیتے ہیں۔ جس کی مثال وہاں کے معاشرے میں پلنے والے ناجائز بچے ہیں۔ ظاہر سی بات ہے ایسا لٹریچر پڑھنے والے ایسا ہی معاشرہ قائم کرتے ہیں۔ سوچنے کا مقام ہے کہ ہم اپنی نسل کو کس مقام پر دیکھنا چاہتے ہیں ؟ ان کے لئے ایسا تعلیمی مواد نفع بخش ہے؟ جوذہن کو پراگندہ کرنے کا سبب بن رہا ہے
اس سے پہلے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے انگریزی پرچے میں کچھ اسی قسم کا سوال تھا، کنیرڈ کالج میں پچھلے سال ایک ایسے ہی موضوع پر مباحثے کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں کالج کی لڑکیوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ جب کسی نے اعتراض اٹھایا تو کہا گیا کہ ہم تو معاشرے میں برائی کی نشاندہی کررہے ہیں۔ یہ معاشرے کی برائیوں کی نشان دہی ہے یا کسی بھی واقعے یا تعلق کو نارملائز کرنے کی ایک سازش؟
مان لیجیے کہ اب یہ موضوعات آپ کی تعلیم گاہوں میں کھلے عام ڈسکس ہوتے ہیں۔ کامسیٹس کا لیکچرر کبھی بھی یہ سوال پرچے میں نہ دیتا اگر اس موضوع پر کلاس میں بحث نہ ہوئی ہوتی، جو لٹریچر انگریزی میں پڑھایا جا رہا ہے وہ مغربی سوچ کا عکاس ہے۔ اسی میں ایک ناول شامل ہے جس میں بیٹا، ماں سے شادی کرنا چاہتا ہے اور پوری کہانی اس کے گرد گھومتی ہے۔
اب جب کہ یہ پرچہ وائرل ہوا ہے تو کیوں نہ ارباب اختیار پر زور ڈالا جائے کہ انگریزی لٹریچر سے اس طرح کی ساری غلاظت نکال دی جائے جو ادب کے نام پر نوجوان ذہنوں میں انڈیلی جا رہی ہے۔ امتحانی انتظامیہ سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ یونیورسٹیوں کالجز میں انگریزی ادب کے نصاب پر نظر ثانی کی جائے اور نصاب نئے سرے سے مرتب کیا جائے۔ اس کے لئے اجتماعی کوششوں کی اشد ضرورت ہے؟ انگریزی لٹریچر کو نکال کر اسلامی لٹریچر رکھا جائے۔ تاکہ ہماری نسلوں کی اسلامی پیرائے میں ذہن سازی ہو سکیں۔