ہم بدترین معاشی بدحالی کے دور سےگزر رہے ہیں۔ لیکن ہماری عیاشی بھی عروج پر ہے، ہماری اشرافیہ عوام سے دور اپنے محفوظ خوشحالی کے جزیرے میں ہر طرح کے فوائد سمٹینے میں لگی ہے،عوام کو دن بدن مشکل ترین امتحان میں ڈال رہے ہیں، ترقی اور خوشحالی خواب بن کر رہ گئی ہے۔ عوام بھی بہت اچھے نہیں ہیں، وہ بھی جانتے بوجھتے ان نا اہل لیڈروں کے ساتھ کیوں چمٹے ہوئے ہیں، کیونکہ وہ بھی چھوٹی موٹی چوری چکاری میں ملوث ہیں، وہ ان پارٹی سے اس لیے تعلق رکھتے ہیں کہ وہ ان کے برے کرتوں میں ان کا ساتھ دیں گے۔
میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں اور اپنے اس خیال پر قائم ہوں کہ جس طرح انگریز کی پالیسی برصغیر میں یہ رہی کہ” لڑاؤ اور حکومت کرو”۔ اب اس ملک کے کرتا دھرتا بھی اس نظریہ اور خیال پر جمے ہوئے ہیں کہ جب ملک کی عوام پر کوئی نیا ٹیکس، بجٹ، مہنگائی، پیٹرول، گیس اور بجلی کے نرخوں میں اضافہ کیا جائے، جس سے عوام کی چیخیں نکلنے لگیں، اور ان میں بغاوت یا احتجاج کی لہر اٹھے تو ملک میں کوئی ایسا بڑا واقعہ ہوجائے، جس سے عوام کی توجہ اصل مسئلہ سے ہٹ جائے، گذشتہ دنوں جب پیٹرول کی قیمت پر ایک ہی ہلہ میں 35 روپے کا اضافہ ہوا تو ہمیں اگلے دن سو سے زائد لاشیں اٹھانی پڑی، پورے ملک میں کہرام مچ گیا، اور ہم پیٹرول بم کی تباہ کاریوں کو بھول گئے، اب منی بجٹ آیا تو کراچی میں سی سی پی او کے دفتر پر دہشت گردوں نے حملہ کردیا، اور اب ہم اس حملے میں سیکورٹی کے نا ہونے، غیر ملکی ہاتھ، اور دہشت گروں کے نیٹ ورک میں الجھے ہوئے ہیں، ہمیں نہ آئی ایم ایف کی شرائط یاد ہیں، آئی ایم ایف سے قرضہ کے لیے سب سے کڑی شرط سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) کی شرح کو سترہ سے اٹھارہ فیصد کرنے کا اقدام ہے جس کا اطلاق تمام شعبوں پر ہو گا۔ جس کا براہ راست عام آدمی کی زندگی پر اثر پڑے گا، روپے کی قوت خرید یوں بھی بہت کم ہے، اب سو روپے میں سے اٹھارہ روپے سیلز ٹیکس کی مد میں جانے پر ، سو روپے کی قیمت خرید کیا رہ جائے گی۔ لگژری اشیا ءپر سیلز ٹیکس کی شرح کو سترہ سے بڑھا کر پچیس فیصد کر دیا گیا ہے۔سگریٹ اور مشروبات، سیمنٹ، ایئر لائن ٹکٹوں پر ایکسائز ڈیوٹی، انکم ٹیکس کی کیٹیگری میں شادی اور دیگر تقریبات پر دس فیصد کے حساب سے ایڈوانس ٹیکس لگا دیا گیا ہے۔ دودھ، دالوں، گندم، چاول اور گوشت کو سیلز ٹیکس کی شرح میں ہونے والے اضافے سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے، لیکن حکومت کی رٹ کہیں بھی نہیں ہے، دودھ کی قیمت میں ایک دم 20 روپے کلو کا اضافہ کردیا گیا ہے، دودھ 210 روپے لیٹر ہے، آٹا 130 روپے کلو ہے اور روٹی کی قیمت 25 روپے ہوگئی ہے۔ یہ بات طے ہے کہ امیر اور طاقتور حکمران اشرافیہ ہی ہمیں تباہی کے ان گڑھوں کی طرف لے جارہی ہے۔
سرکاری گاڑیاں اور پیٹرول، کا استحقاق صرف اشرافیہ کو کیوں حاصل ہے؟ چاروں صوبوں اور وفاقی حکومت کے افسران نے ایسی ڈیڑھ لاکھ سے زائد سرکاری گاڑیاں اپنے لیے مختص کر رکھی ہیں۔ کیا ایسی سہولیات برطانیہ، امریکہ اور کینیڈا، بھارت جیسے ملک میں حاصل ہیں؟ ہم نے بحریہ، ڈی ایچ اے اوردفاعی اداروں کے نام پر جو کاروبار شروع کر رکھا ہے، اسے اب بند ہونا چاہیئے، کل ہی33 برس بعد سپریم کورٹ نے آرڈیننس فیکٹری منصوبے کے متاثرین کو زمین کی مارکیٹ ریٹ پر ادائیگی کا حکم دیتے ہوئے حکومت اور وزارت دفاع کی کم قیمت پر زمین کی خریداری کی اپیلیں مسترد کیں ہیں۔ حکومت نے عوامی منصوبوں کے متاثرین کو جائز حق دینے کیلئے کوئی طریقہ کار نہیں بنایا، یہی وجہ ہے کہ عوامی منصوبوں کے متاثرین کے تنازعات کے ہزاروں مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔ 1990 میں ضلع اٹک کے تین دیہات 29ہزار کنال زمین30ہزار روپے فی کنال خریدنےکا نادر شاہی حکم دیا گیا تھا۔
نا انصافی اور ظلم حد سے بڑھ جائے تو لوگ دہشت گردی کی طرف نکل جاتے ہیں، ہماری سیکورٹی ایک سوالیہ نشان ہے۔ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے اس بیان کی مذمت کی جانی چاہیئے، جس میں انہوں نے” قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کیخلاف مزید حملوں کی دھمکی دی ہے، اور کہا ہے کہ پولیس اہلکاروں کو چاہیے کہ غلام فوج کے ساتھ ہماری جنگ سے دور رہیں۔ کراچی پولیس آفس پر حملہ کرنے والے تینوں دہشت گردوں کا تعلق شمالی وزیر ستان سے بتایا جارہا ہے، ہمارے حکام کو سوچنا چاہیئے کہ دہشت گردوں کے سرے بلوچستان، اور شمالی وزیرستان سے کیوں ملتے ہیں؟۔