بس ہمیں چوں چراں کرنے کی ضرورت ہی نہیں کہ جو کہہ دیا وہ کہہ دیا رب نے کہ اسلام ایک انتہائی پاکیزہ مذہب ہے، سر اسر اخلاق ہے اور شرم و حیا ہی کو فروغ دے کر معاشرے کو پاکیزہ رکھتا ہے۔ جبکہ انسان کی فطرت میں حیاڈال دی گئی ہے گویا پاکدامنی اُس کی سرشت میں کوٹ کوٹ کربھردی گئی ہے۔ پھر اس لئے ہی لباس کی ضرورت اور اہمیت کا واضح تصور دیا گیا۔ لباس کے تقاضے بتائے گئے اور پھر دین فطرت ایک دن یا چند گھنٹوں پر محیط نہیں بلکہ ساری زندگی مرتے دم تک اس کو پیش نظر رکھنا ہے عملاً اور نیتاً تو گویا اسلام پاکیزگی اور حیا کو فروغ دینے والا عظیم مذہب ہوا !جبھی تو آپ ﷺنے فرمایا کہ جب ہر دین کی کوئی خاص خصلت ہوتی ہے تو اسلام کی خاص خصلت حیا ہے جو ایمان کا جز وہے جس میں حیا نہیں اس کا جو جی چاہے کرتا پھرےـ” اتنے سخت الفاظ اورتنبیہہ کے باوجود کچھ کہنے کرنے سننے کی گنجائش کیسے ہو سکتی ہے؟ پھر کیسے ہمار امذہب اس بے حیائی کو فروغ دے سکتا ہے؟
برائی کو بھلائی سے رفع کرو” ہمیں اسی کا حکم ہے ناکہ برائی سر چڑھ کر بولے ! تمام اہل ایمان مسلمان بھائی بہنوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ رب کی نافرمانی گناہ ہے اور بے حیائی گناہ ہے جس کا ٹھکانہ جہنم ہے تو اللہ نہ کرے کیا ہم جہنم کیلئے تیاری کررہے ہیں؟ ہمیں ہر لمحہ اس برائی کو دور کرنے کیلئے ہر دن شعوری طور پر حجاب ڈے منانا ہوگابلکہ ڈے بھی نہیں ان خرافاتی نعروں اور ایسے منائے جانے والے دنوں کو نظر انداز کرنا ہوگا۔ اس طرح کے خرافاتی کام کرنے والوں کی تمام تر سرگرمیوں پر سختی سے پابندی عائد کر کے جرمانے لگانے ہونگے۔ برائی کو ہر صورت روکیں بھلائی کا حکم دیں۔ اگر ہم نے اس بدعت کو ختم کرنے کی کوشش نہ کی تو سمجھیں ہم نے اپنی نسلوں کو خو د تباہ کیا۔
اللہ بچائے ہمیں شیطان کی چال سے
مردوں کو پھانستی ہے یہ عورت کے جال سے
معاشرے کے بگاڑ کے تم ذمہ دار ہوئے ،تمھیں تو عورتوں کو عزت احترام اور محافظت میں رکھتے ہوئے انہیں شعور دیناہے کہ تم مائیں بہنیں بیٹیاں، دنیا کی عزت تم سے ہے۔ جب انھیںہی بے عزت اور بے وقعت پائو گے تو سکھ چین قرارکہاں پاؤ گے؟ ہر فرد اپنے عمل کا خود ذمہ دار ہے۔ عورتیں، مائیں بیٹیاں بہر حال مردوں ہی کے زیر کفالت ہوتی ہیں ان کی اتنی جرات نہیں کہ بدک جائیں! یہ آپ حضرات کی دی ہوئی آزادیاں، نخرے برداریاں اور جی حضوریاں ہیںجو سر چڑھ کر بولتی ہیں جہنم کا درکھولتی ہیں اس لیے مردوں کی تعلیم خاص کر دینی تعلیم ضروری ہے ورنہ انہیں شعور بھی ہے اچھا ئی برائی کا تو وہ کیا کرینگے؟ ہاں مگر مائیں بہنیں ہی ہیں جو پیچھے ان حضرات کے برے اعمال کی ذمہ دار ہیں کیو نکہ انہوں نے ان حضرات کو اللہ کا بندہ، بندے کا پتر کیوں نہیں بنایا؟ کیوں انہیں رب سے نہ جوڑا؟ کیوں انھیں کھلا اور آزاد ان کی مرضی پر چھوڑا؟ کیوں رب کے احکام کی بجا آوری نہ کی؟ یہ سوچنے کی بات ہے۔
غلطی انسان سے ہی ہوتی ہے توبہ کرکے واپس آجائیں تو بہتر مگر غلطی در غلطی !یہ تو سراسر گناہ ہوانا پھر اس کی معافی کیسے؟ پھر تو عذاب کی شکلیں نظر آرہی ہیں! اللہ دیکھا رہا ہے۔ رحم ما نگیں ہم سب! انتہائی عاجزی اور نیک نیتی سے اور دوبارہ رب سے جڑ جائیں۔ رب کی مانیں، فطرت پر قائم ہونے کی زندگی بھر کوشش کریں اور اپنا مقصدِ حیات دینی اور دنیاوی حیثیت سے پور ا کرنے میں لگ جائیں، ہر صورت اچھائیاں کریں اور برائیوں سے خود کو روکیں تو دوسروں کو بھی روک سکیں۔ یہ نہ بھولیں کہ اپنی سی کوشش رب کی اطاعت،شریعت کی پابندی اور وقت اور نعمتوں کی صحیح معنوں میں قدردانی ہی ہماری اصل ڈیوٹی ہے۔ سوچیں! یہ دن ہمارے ایمان کی تجدید کا دن ہو، احساسِ ذمہ داری اور جوابدہی کا دن ہو ۔محبت فاتحِ عالم کا دن ہو ۔ رب سے محبت، اولاد سے محبت، رشتوں سے محبت ، انسانیت سے محبت ، اللہ کی مخلوق سے محبت، کیسی محبت ؟ با مقصد، با حیا، باوفا محبت !
محبت کے دم سے یہ دنیا حسین ہے
محبت نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے
محبت ہی دنیا محبت ہی دیں ہے
محبت نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے