دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر قائم ہونے والی اقوام متحدہ، مستقل امن کے لیے پوری دنیا کی توقعات کا مرکز ہے۔چین امن و استحکام برقرار رکھنے کے اپنے وژن سے جڑے رہتے ہوئے امن کو سب سے قیمتی گردانتا ہے، اور اُس نے قدیم زمانے سے ہی ”یکسانیت کے بجائے ہم آہنگی” پر عمل کیا ہے۔اقوام متحدہ کے قیام کے بعد سے چین نے جزیرہ نما کوریا کے جوہری مسئلے، ایرانی جوہری مسئلے، افغانستان، میانمار اور فلسطین اسرائیل تنازع سمیت اہم علاقائی ہاٹ اسپاٹ مسائل کے سیاسی تصفیے میں فعال طور پر حصہ لیا ہے۔چین آج بھی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اختیار اور اتحاد کو برقرار رکھے ہوئے ہے اور اس کے مینڈیٹ کے مطابق اقوام متحدہ کی ثالثی کی حمایت کرتا رہا ہے۔ چین نے بین الاقوامی اسلحے کے کنٹرول اور تخفیف اسلحہ کے عمل میں بھی فعال کردار ادا کیا ہے، اور جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ سے متعلق معاہدے سمیت درجنوں بین الاقوامی ہتھیاروں کے کنٹرول کے معاہدوں اور میکانزم کو تسلیم کیا ہے۔
آج کی دنیا میں بڑھتے ہوئے تنازعات اور سیکیورٹی چیلنجز کے جواب میں چین نے گلوبل سیکیورٹی انیشی ایٹو (جی ایس آئی) پیش کیا۔جی ایس آئی کو اقوام متحدہ سمیت بین الاقوامی برادری کی جانب سے وسیع پیمانے پر تسلیم کیا گیا ہے۔ یہ اقدام اس بات کی وکالت کرتا ہے کہ انسانیت سلامتی کے اعتبار سے ایک ناقابل تقسیم کمیونٹی کی مانند ہے۔ یہ اقدام امن کے حوالے سے درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے بنی نوع انسان کو چینی دانش فراہم کرتا ہے، اور عالمی سلامتی کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے چینی حل کے تحت اپنی شراکت کو یقینی بناتا ہے۔چین کے امن پسند رویوں کی حالیہ مثال یوکرین بحران میں اُس کا تعمیری کردار ہے جس میں اس نے معروضیت اور انصاف کو برقرار رکھتے ہوئے ہمیشہ فعال طور پر امن مذاکرات کو فروغ دینے کا موقف اپنایا ہے۔چین کی امن پسندی کو سراہتے ہوئے دنیا اسے عالمی امن کا معمار، عالمی ترقی میں شراکت دار اور بین الاقوامی نظم و نسق کا محافظ کہتی ہے۔
چین کے نزدیک امن اور ترقی لازم و ملزوم ہیں، یہی وجہ ہے کہ اُس کی جانب سیگلوبل ڈیولپمنٹ انیشی ایٹو (جی ڈی آئی) پیش کیا گیا تاکہ کووڈ 19 کے شدید منفی اثرات کا سامنا کرتے ہوئے عالمی ترقی کو متوازن، مربوط اور جامع بنایا جا سکے۔ اس اقدام کا مقصد ترقی کو ترجیح دینا ہے، عوام پر مرکوز نقطہ نظر اپنانا ہے، مشترکہ مفاد کو اہمیت دینا ہے، جدت طرازی پر مبنی ترقی کو فروغ دینا ہے، انسانیت اور فطرت کے درمیان ہم آہنگی کے لئے پرعزم رہنا ہے۔انہی نظریات کے باعث جی ڈی آئی نے زبردست نتائج حاصل کیے ہیں۔تا حال، 100 سے زیادہ ممالک اور اقوام متحدہ سمیت متعدد بین الاقوامی تنظیموں نے جی ڈی آئی کی حمایت کا وعدہ کیا ہے، اور 70 کے قریب ممالک جی ڈی آئی کے ” گروپ آف فرینڈز ” میں شامل ہو چکے ہیں.اسی حوالے سے ایک گلوبل ڈیولپمنٹ پروموشن سینٹر تشکیل دیا گیا، جس میں 31 ممالک اور علاقائی تنظیمیں شامل ہو چکی ہیں۔ ایک گلوبل ڈیولپمنٹ پروجیکٹ پول قائم کیا گیا، جس میں 50 منصوبوں کی پہلی فہرست شروع کی جا چکی ہے۔ جی ڈی آئی کے گروپ آف فرینڈز میں شامل 50 سے زائد رکن ممالک سمیت مجموعی طور پر افرادی وسائل کی ترقی سے متعلق ایک ہزار تربیتی پروگرامز منعقد کیے گئے ہیں۔دریں اثنا،10 سال قبل پیش کیا جانے والا بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) آج عوامی بھلائی اور تعاون کو فروغ دینے کے لئے ایک مقبول بین الاقوامی پلیٹ فارم بن چکا ہے، جس میں دنیا کے دو تہائی ممالک اور ایک تہائی بین الاقوامی تنظیموں کا احاطہ کیا گیا ہے.اقوام متحدہ کے پاپولیشن فنڈ کے مطابق چین کی ترقی اور تعاون سے بہت سے ممالک کو فائدہ ہوگا کیونکہ دنیا کی آبادی 8 ارب سے تجاوز کر چکی ہے۔
ملکی سطح پر چین نے اپنے 1.4 بلین سے زائد لوگوں کی بنیادی ضروریات زندگی کو احسن انداز سے پورا کیا ہے اور 700 ملین سے زیادہ لوگوں کو غربت سے نکالا ہے، جو انسانی حقوق کے عالمی کاز میں ایک اہم شراکت ہے۔دسمبر 2020 ء میں چین نے ملک سے غربت کے خاتمے کا ہدف، مقررہ وقت کے مطابق حاصل کر لیا۔ آٹھ سال کی مسلسل جدوجہد کے بعد، چین نے اپنی پوری دیہی غریب آبادی کو موجودہ معیار کے تحت غربت سے باہر نکالا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ غربت انسانی معاشرے میں ایک دائمی مسئلہ ہے، اسی باعث چین انسداد غربت کے عالمی مقصد کی روشنی میں باقی دنیا کے ساتھ اپنے تجربات کا مسلسل اشتراک کر رہا ہے۔حالیہ برسوں میں، چین نے بے شمار منصوبوں کے ذریعے ترقی پذیر ممالک کی ترقی کی حمایت کی ہے۔ ان ممالک میں تخفیف غربت، زرعی تعاون، تجارتی امداد، ماحولیاتی تحفظ اور موسمیاتی تبدیلی، صحت، تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت جیسے شعبہ جات میں تعاون کو فروغ دیا گیا ہے۔ چین نے افریقی ممالک کو پانی کے تحفظ کے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر میں مدد کی ہے، زرعی تعاون کے لئے نمائشی زون قائم کیے ہیں، اور دیگر منصوبوں سے چین۔افریقہ تعاون کو آگے بڑھایا ہے.حقائق کے تناظر میں چین کے عملی اقدامات واضح کرتے ہیں کہ وہ ترقی کے سفر میں اکیلا گامزن رہنے کے بجائے اپنے ترقیاتی ثمرات سے دیگر دنیا کو بھی مستفید کرنا چاہتا ہے، یہی انسانیت کی ایک بڑی خدمت ہے۔