اسلم ! (بیوی سے) ایک بندہ پھنسا ہے ایک لاکھ سے کم میں تو اس کا کام نہیں کروں گا پھر تم جی بھر کر شاپنگ کر لینا۔
بیوی ! اسلم خدا کا خوف کرو میرا اور اپنا نہیں تو بچوں کاتو کچھ خیال کرو انہیں تو حرام رزق سے دور رکھو،
اسلم ! یہی سب کچھ آجکل چل رہا ہےحرام حلال کے چکر سے نکل آؤ ورنہ اس مہنگائی کے دور میں پیچھے رہ جائیں گے۔
رات کو سونے سے پہلے حسب معمول اسلم نے موبائل فون چیک کرنے کے لئے اٹھایاتو فیس بک ترکی اور ملک شام کے زلزلے کی خبروں، ہولناک وڈیوز اور تصاویرسے بھرا پڑا تھا، بڑے بڑے رہائشی ٹاورز پَل بھر میں زمین دوزہوگئے تھے، ملبے تلے دبے انسانوں کی چیخ وپکار؛ یہ لرزہ خیز مناظر دیکھ کر بے حس اسلم بھی لرز گیا، اُف خدایا ! یہ تو قیامت صغریٰ ہے اس نے ایک جھر جھری لی اور موبائل بند کردیا۔
اس نے سونے کی بہت کوشش کی لیکن نیند اس سے کوسوں دور تھی زلزلے کے وہ مناظر جیسے اس کے ذہن کے پردوں سے ہٹ ہی نہیں رہے تھے کروٹیں بدلتے بدلتے نہ جانے کب نیند نے اسے اپنی آغوش میں لے لیا۔
ملبے تلے دبے اسے سانس لینا بھی دشوار محسوس ہورہا تھا اندھیرے میں اس نے چاروں طرف دیکھنے کی کوشش کی لیکن اسے کچھ نظر نہیں آرہا تھا اس نے بیوی بچوں کو آواز دی لیکن جواب نہ دارد، اس نے بڑی مشکل سے ایک ہاتھ کو ہلایا اس پاس ٹٹولا پاس ہی اسے ایک بے جان انسانی جسم محسوس ہوا اسے جھنجھوڑا لیکن اس میں جان ہوتی تو جواب دیتا یقیناً یہ بے جان جسم اسکے اکلوتے بیٹے کا ہی تھا اس کی سانسیں اکھڑنے لگیں اس نے پوری قوت سے چیخنے کی کوشش کی لیکن کوئی اسکی آواز سننے والا نہیں تھا، کیا میں مرجاؤں گا میرا سب کچھ ختم ہوجائے گا، ایک دم اسے اپنے معاملات یاد اگئے، میرے اعمال،میرے گناہ، میں تو ساری زندگی نفس کی غلامی میں لگا رہا۔
بیوی ! اسلم، اسلم تم ٹھیک ہو، سب خیریت ہے نا کیا تمہاری طبیعت خراب ہے، وہ ہڑ بڑا کر اُٹھ کھڑا ہوا، چاروں طرف دیکھنے لگا، شائد میں کوئی ڈراؤنا خواب دیکھ رہاتھا، وہ سیرت اور عاصم، میرا مطلب ہے کہ بچے کہاں ہیں۔ بیوی ! وہ اُٹھ گئے ہیں اسکول کے لئے تیاری کر رہے ہیں۔
رات میں وہ سویا تو ایک ہی آواز اس کے کانوں میں سرگوشیاں دےرہی تھی کہ اللہ رحم فرمائے ایسی صورت حال ہمیں بھی پیش آسکتی ہے کہ ہمیں اپنے گناہوں کی معافی طلب کرنے کا وقت بھی نہیں مل سکے گا اور اس نےنہ ہی کبھی حقوق العباد اورنہ ہی اپنے رب کے حقوق کی پاسداری کی ہے تو کیا، موت کے بعد اسکے ساتھ کیا ہوگا۔ آج تک اس نے کبھی اس طرح سوچا ہی نہ تھا وہ بڑا غافل بندہ تھا لیکن آج اس کاضميراسے جھنجھوڑ رہا تھا، وہ فورا اٹھا وضو کر کے بارگاہ الٰہی میں سر بسجود ہوگیا۔ آج تک اس نے کبھی اس طرح سوچا بھی نہ تھا،آنکھوں سے آنسو رواں زبان پر ندامت کی سر گوشیاں تھیں۔
الله کے حبیب محمدﷺ کی ایک حدیث نہ جانے کیسے اس کے لبوں پر آگئی جو چند دن پہلے اتفاقاً اس نے پڑھی تھی: اے اللہ اپنے قہر و غضب سے ہمیں قتل نہ فرمایئے اور نہ اپنے عذاب سے ہمیں ہلاک کیجیے گا، بلکہ عذاب سے پہلے ہی ہمیں عافیت عطافرما دیجیے گا۔ آمین۔