14 فروری کا دن جہاں عالمی سطح پر یومِ محبت کے نام سے موسوم ہے وہیں عالمِ اسلام خصوصاً پاکستان میں یہ دن “یومِ حیا” کے نام سے منایا جاتا ہے، مزے کی بات یہ کہ اس دن کو پورے ملک کے مذہبی طبقے سے نہ صرف پزیرائی حاصل ہوئی بلکہ اب ہر سال 14 فروری کوملک گیر سطح پر حیا کے حوالے سے سیمینارز کا انعقاد کیا جاتا ہے،حیا سے متعلق آیات و احادیث کے بینرز اور پوسٹرز جگہ جگہ آویزاں کئے جاتے ہیں جن کے زریعے حیا کی اہمیت کو اجاگر کیا جاتا ہے،مگر قطع نظر ان تمام کوششوں کے ہم دیکھتے ہیں کے بے حیائی کم ہونے کے بجائے بڑھتی جا رہی ہے اور اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ عالمی سطح پر کی گئی بے حیائی کے فروغ کی کوششیں ان کوششوں سے کئی گنا زیادہ ہیں جو مذہبی طبقہ حیا کے فروغ کے لئے انجام دے رہا ہے۔ایسا کیوں ہے؟
میرے خیال میں میڈیا کے اس وسیع دور میں کوئی بھی کام جو عالمی سطح پر انجام دیا جارہا ہے اس کو ہر حال میں نہ صرف پزیرائی حاصل ہوتی ہے بلکہ اس کے فروغ کے بے شمار طریقے اور زرائع بھی استعمال کئے جاتے ہیں خصوصاً الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا بے حیائی کے فروغ کے لئے جو طریقے استعمال کر رہا ہے ہمارے ملک کے مذہبی طبقے کے پاس اس کا عشر عشیر بھی موجود نہیں ہے۔خود ہمارے ملک میں ایسی ویب سائٹس اور چینلز موجود ہیں جو بھرپور طریقوں سے بے حیائی نہ صرف پھیلا رہے ہیں بلکہ اس کے لئے پلیٹ فارم بھی فراہم کر رہے ہیں،خصوصاً پاکستانی ڈراموں اور فلموں میں جو کلچر متعارف کرایا جا رہ ہے اس کا ہماری اسلامی اور معاشرتی اقدار سے کوئی دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔
ہمارادین ہمارے لئے رشتوں کے حوالے سے کچھ قیود عائد کرتا ہے جن پر عمل پیرا ہوئے بغیر ایک باحیا معاشرے کا قیام ممکن نہیں اور صرف یہی نہیں بلکہ ہماری کچھ معاشرتی اقدار بھی اس بات کا تقاضہ کرتی ہیں کہ ہم اپنی حدود کے اندر رہیں تو ہی رشتوں کا حسن قائم رہتا ہے،ہم اس دین کے علمبرداد ہیں جو ہمیں ماں بیٹے،باپ بیٹی،بھائی بہن کے ساتھ بھی حجاب میں رہنے کا حکم دیتا ہے،جہاں ماں باپ کے کمرے میں بلا اجازت داخل ہونا یا جوان بھائی بہن کے کمرے میں بے دھڑک داخل ہونے کی بھی ممانعت ہے،جہاں محرم رشتوں میں بھی ایک حدِ فاصل مقرر کر دی گئی ہے وہاں کسی سالی کا بہنوئی کے ساتھ کھلم کھلا اختلاط یا کسی دیور یا جیٹھ کا بھابی کی ساتھ میل ملاپ کس طور فتنہ سے خالی ہو سکتا ہے مگر افسوس کیساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ڈرامے اور فلمیں کچھ اسی طرح کے کلچر کو فروغ دے رہے ہیں جہاں بہن اپنی ہی بہن کے شوہر کے ساتھ ملوث پائی جاتی ہے اور بیوی اپنے شوہر کو دھوکہ دے کر اس کے کسی دوست،کولیگ یا بھائی کیساتھ رنگ رلیاں مناتی دکھائی جاتی ہے۔
الحمد للہ ہم مسلمان ہیں اور ابھی ہمارے گھر اس طرح کی خرافات کی آماجگاہ نہیں بنے ہیں،ان قابلِ احترام رشتوں کی حرمت ہمارے گھروں میں ابھی باقی ہے مگر اس طرح کی بے حیائی کا فروغ آگے جا کر کس قسم کا ماحول پیدا کر سکتا ہے یہ سوچنے والی بات ہے،ہمارے بچپن میں بزرگ خواتین گھروں کے اندر بھی سر ننگا رکھنے کو معیوب سمجھتی تھیں مگر آہستہ آہستہ میڈیا کلچر گھروں میں داخل ہوا تو سروں سے دوپٹہ کھسک کر سینے پر پھر گلے میں پھر ہوتا ہوتا سرے سے غائب ہوگیا،اب تو اکثر گھروں میں بڑی بزرگ خواتین بھی کٹے بالوں کے ساتھ بغیر دوپٹہ چست لباس پہنے نظر آتی ہیں،نوجوان لڑکیوں کا حال تو نہ ہی ہوچھیں،ہمارے وقتوں میں باپ اور بھائی کے گھر آنے کے وقت خواتین الرٹ ہوجاتی تھیں مائیں بہو بیٹیوں کو آنکھوں آنکھوں میں ڈوپٹے درست کرنے اور نگاہیں نیچی کرنے کے اشارے کرتی تھیں مگر اب تو کون کس حال میں ہے کسی کو ہوش نہیں ہوتا،ڈور بیل پر بغیر دوپٹے دوڑی جاتی ہیں،گھروں کے مرد چابیوں سے دروازے کھول کر بغیر اطلاع گھروں میں داخل ہو رہے ہوتے ہیں،کسی کو کسی سے کوئی حیا نہیں! چلیں جہاں صرف میاں بیوی اکیلے رہتے ہوں تو وہاں تو پھر بھی بات سمجھ آتی ہے مگر جوان بچیوں یا بہنوں کے ہوتے تو باپ اور بھائی کو بھی احتیاط برتنی چاہئے مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے اور اس سب کے پیچھے ایک ہی محرک کار فرما ہے اور وہ ہے میڈیا کلچر! اور مذہب سے دوری!
جوں جوں میڈیا بےباک ہورہا ہے توں توں عوام میں بھی بےباکی بڑھتی جا رہی ہے،اس کا سدِباب صرف سیمینارز یا ریلیوں کے انعقاد سے نہیں ہو سکتا بلکہ اس کے لئے ہم سب کو انفرادی کوششیں کرنی ہوں گی،اپنے گھروں سے میڈیا کلچر کو ختم کر کے دینی تعلیم کو عام کرنا ہوگا،بچے اور بچیوں کو حیا کی اہمیت سے آگاہ کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی عصمت کی حفاظت کے لئے صحیح وقت پر نکاح کے انعقاد کی کوشش کی جائے اور گھر کے ماحول کو با پردہ بنانے کے لئے گھروں کے اندر مردوں اور خواتین کے بے جا اختلاط کو کنٹرول کیا جائے،شادی بیاہ کی محفلوں کو بھی سادگی سے انجام دینے کی کوشش کی جائے اور سنت کے مطابق نکاح کو فروغ دیا جائے۔
میاں بیوی کا وہ رشتہ جسے اللہ تعالیٰ نے لباس سے تعبیر کیا اسے بھی نکاح کے اسٹیج پر لا کر بے لباس کر دیا گیا ہے اب جب تک دولہا نکاح کے بعد دلہن کو ماتھے پر بوسہ نہ دے یا گلے نہ لگائے تو نکاح نہ مکمل تصور ہوتا ہے،یعنی جو حلال کام پہلے بند کمرے میں انجام پاتا تھا اسے بھی سرِ عام کرنے کی ترغیب دی جا رہی ہے یہی نہیں ہنی مون کے نام پر دنیا کی سیر اور پھر اس کی بیہودہ تصاویر کے اسٹیٹس پورے سوشل میڈیا پر لگائے جاتے ہیں اور یہ صرف چند ایلیٹ کلاس گھرانوں کی کہانی نہیں رہ گئی بلکہ اب یہ گھر گھر کی کہانی بن چکی ہے کیوں کہ سوشل میڈیا اب گھر گھر ہر ہاتھ موجود ہے جہاں کسی قسم کی کوئی تعلیم نہیں پہنچی اس گھر اور ہاتھ میں بھی موجود ہے پھر آپ اس کی روک تھام کیسے کریں گے؟جس ملک میں برائی ہر ہاتھ کی پہنچ میں ہو اور تعلیم میسر نہ ہو،کھانے کے لئے پیسے نہ ہوں مگر اینڈرائڈ اور وائی فائی میسر ہوں وہاں خالی خولی مناظروں اور مباحثوں سے تبدیلی نہ ممکن ہے،اس کے لئے پہلے تعلیم کو اور خصوصاً دینی تعلیم کو عام کرنا ہوگا،تعلیمی اداروں میں پردے کا اہتمام اور مخالف صنفوں کے آزادانہ اختلاط پر پابندی عائد کرنا ہوگی۔
ایسے قوانین وضع کرنے ہوں گے جو مرد اور عورت کی عصمت کے محافظ ہوں،اگر کسی کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آئے تو انصاف کی فراہمی ممکن ہو مشکل نہ ہو،مجرم کو بر وقت اور قرار واقعی سزا دلوائی جا سکے اور ایسا تب ہی ممکن ہے جب ہم دین پر مکمل طور پر عمل کرنے والے بن جائیں،جہاں ہمارے گھروں کے مرد دیوث نہ ہوں بلکہ گھروں میں آنے جانے والے لوگوں پر ان کی مکمل نظر ہو اور وہ خود اپنے گھر کے محافظ ہوں اور ایسا تب ہی ممکن ہے جب ضمامِ کار دین کے علمبردار ان نیک ہاتھوں میں ہو جو خود بھی حیادار ہوں اور دوسروں کی حیا کے محافظ بھی ہوں جو اپنی عصمت کی حفاظت کے ساتھ ساتھ دوسرے کی عصمت کی حفاظت بھی کرنا جانتے ہوں۔
اسلامی پاکستان خوشحال پاکستان