حیاایک فطری جذبہ ہے جو ہر عورت اور مرد میں پایا جاتا ہے یہ کوئی نیا جذبہ نہیں ہمارے باپ آدم اور ہماری ماں حوا میں یہ جذبہ موجود تھا انسان کی پیدائش کے ساتھ ہی یہ حیا کا فطری جذبہ بھی اللہ نے انسان کے اندر رکھا۔
ایک مشین بھی بنائی جاتی ہے تو اسکے پرزے کام کا تعین، اور اسکی قابلیت کے مطابق اس سے کام لیا جاتا ہے کسی دوسری مشین کا پرزہ کسی دوسری مشین میں لگا کر کام نہیں چلایا جاسکتا ہے کام ٹھیک ہونے کی بجائے کام خراب ہو جائے گا اور نقصان بھی زیادہ ہو گا ۔ نقصان کے بعد جو پچھتاوہ ہوگااسکا کوئی فائدہ نہیں ۔ چڑیوں کے کھیت خالی کرنے کے بعد، بعد کی تدابیر بے معنی ۔
اللہ نے مرد اور عورت کو بنایا اسکے کاموں کا تعین بھی کیا ہے ان کے لئے ہدایات موجود ہیں اگر مرد وزن کو ان کےمقرر کردہ یا متعین کاموں سے ہٹا کر ان سے باقی کام لئے جائیں گے کام تو ہونگے لیکن معاشرے کو جو نقصان ہوگا اسکا ازالہ ناممکن ہو گا۔
معاشرے کی خوبصورتیاں اور حسن بھی اس میں ہے کہ اپنی متعین کردہ حد میں رہ کر کام کرکیاجائے ،جب انسان ان مقرر کردہ حدود کو پامال کرتا ہے تو اپنے رہنے کے ٹھکانہ کو تباہی سے دوچار کر رہا ہوتا ہے لیکن اسکی خام خیالی میں وہ ترقی کی منازل طے کرتاآسمان کی وسعتوں کو چھو رہا ہوتا ہے، حقیقت میں وہ ذلت وگمراہی ضلالت پر چلتے ہوئے اندھے کنویں میں گرنے کے طرف بڑھ رہا ہوتا ہے۔
قوم لوط نے معاشرے میں مقررکردہ حدود کو توڑا تھا مردوزن دونوں کو اللہ کے غضب کا سامنا کرنا پڑا کسی بات، کسی نصیحت، کو سننے کے لئیے وہ تیا رنہیں تھے جس جس کام کے لئیے وہ بنے تھے اس ہٹ کر ہر اس کام کو کرنا چاہا جو انکی مرضی اور جو انکا دل کرتا تھا نتیجہ ۔عروج ، عزت ، وقار اور ترقی کی بجائے ذلت رسوائی کی کھائی اور اللہ کے غضب کا سامنا کرنا پڑا۔
ان حدوں کو جو معاشرے اور ا س میں رہنے والوں پر مقرر ہیں توڑنے کی خواہش کیسے پیدا ہوتی ہے؟ اس خواہش کو روکنا کیوں ضروری ہے ؟ اور کیسے روکا جا سکتا ہے؟ جب تجھ میں حیا نہ رہے تو جو مرضی کر ہے کی مثال ہمیں قوم لوط میں نظر اتی ہے، جب تک انسان حیا کے حصار میں رہتا ہے ذلت ورسوائی سےمحفوظ و مامون رہتا ہے جب وہ ایک بار اس قلعہ کا دروازہ کھولتا ہے تو ذلت ورسوائی کے گڑھے کی طرف بڑھتا ہے اسے کوئی کام ذلت کا کام محسوس ہی نہیں ہوتا وہ بڑی آسانی سے ان حدوں کو توڑنے کے لئیے تیار ہوجاتا ہے۔
شیطان انسان کو بے حیائی اور فحاشی کے لئیے اکساتا ہے، شیطان کے چنگل میں پھنس کر انسان میںبغاوت اور سر کشی پیدا ہوتی ہے وہ(شیطان) اس کے( انسان) شرف سے اسے گرانے کے لئیے اپنی انگلیوں پر نچاتا ہے انسان پر وار کے لئیے وہ کبھی جلد بازی سے کام نہیں لیتا بلکہ آہستہ آہستہ ذہن سا ی کر کے پھر بھی اسکے کمزور لمحے کا انتظار کرتا ہے موقع ملتے ہی جھپٹتا مار کر اسکے شرف، عزت و وقار کو تار تار کر دیتا ہے۔
آجکل ڈراموں میں مسائل کے نام جو پیش کیا جارہا ہے وہ آج سے صرف دس سال پہلے یہ معاشرہ برداشت کرنے کے لئیے تیا ر نہ تھا لیکن آج خواب خرگوش کے مزے لے رہا ہے سسر بہو دیور بھابی سالی بہنوئی۔طریقے سکھائے جارہے ہیںکہ کیسے کسطرح داو پیچ لڑائے جاسکتے ہیں۔ ادب کے نام پر بے ادبی اور مسائل کے نام پر فحاشی کو عام پر کرتے معاشرے کی جو خدمت کی جارہی ہے اس سے معاشرے کا چہرہ اور پورا بدن لہو لہو ہو جائے گا ۔رشتوں کی حرمت احترام کی ڈوری سے کس کر بندھی ہو ئی تھی اسےآہستہ آہستہ ڈھیلا کیا گیا اور اسکی گرہ کو کھولنے کی پوری کوشش وسعی کہ جارہی ہے ،
کس خوبصورتی سے حق کے نام پر عورتوں کو بازار کی زینت بنایا پھر اسکی چاردیواری اسکے لئیے قید قرار دی اسکی انکھوں سے حیا کو ختم کرنے لئیے بولڈ ہونے کے ایوارڈ سے نوازا اسکی حفاظت کرنے والے رشتوں کو مد مقابل کر دیا ۔ اسکو حسن کا تاج پہنانے کے لئیے سر عام ننگا کر دیا۔یہاں تک ہی بس نہیں کیا بلکہ کھانا گرم نہ کرنے کانعرہ لگوا کر ہر ایرے غیرے کا کھاناگرم کروایا ۔اپنی نسل کو بیٹھنے کا سلیقہ واداب سکھانے کو بوجھ بنا دیا۔ وہ گود جس نے تہذیب اقدار کو پروان چڑھانا تھا اپنی نسل کو بہترین رنگ میں رنگنا تھا حق گوئی کی تلقین اور ان کے راستوں سے عریانی بے باکی فحاشی بے حیائی کے سنگ ریزوں کو اپنی پلکوں سے اٹھانا تھا ان کو معاشرے کی آلودگیوںآوارگیوں سے بچانا تھا وہ انہیں نرسریوں کے حوالے کر کے اپنی ترقی کے لئیے آگے بڑھنا چاہتی ہے۔
دوسری طرف مرد اسے سیڑھی بناکر ترقی کے دروازے کھولنے پر زور لگا رہا ہے اپنی ذمہ داری اسکے کندھوں پر ڈال کر خود اپنی ہوس کو پورا کرنے کے راستے کوآسان کر رہا ہے اپنی کمزوری اور بے حیائی کو برابری کے حقوق کے خوشنما ریپر میں لپیٹ کر قوام کی ذمہ داری سے راہ فرار حاصل کر رہا ہے ۔
اگر معاشرے کو مسکن کے قابل رکھنا ہے تو پھر اپنی حدود کو پہچاننا ضروری ہے۔
علامہ اقبال نے بہت پہلے اس مرض کو بھانپ لیا تھا اسلئے تو انہوں نے فرمایا تھا،،
بتول بن جاؤ زمانے کی نظروں سے چھپ جاؤ کہ
تمہاری گود میں پھر سے ایک حُسین پرورش پا سکے۔