ڈاکٹر صاحب فرما رہے تھے:
سوچ بدلتی ہے توعقیدے بدل جاتے ہیں
عقیدے بدلتےہیں تواصول بدل جاتے ہیں
اصول بدلتےہیں تو کارکردگی بدل جاتی ہے
کارکردگی بدلتی ہے تو کردار بدل جاتے ہیں
اورمیں لفظوں کے سحر میں کھوئی سوچ رہی تھی سچ تو یہی ہے کہ یہ سوچ کیا سے کیا بنا دیتی ہے،
سوچ کی تبدیلی انسان کو عرش سے فرش اور فرش سے عرش پر لا بٹھاتی ہے،بسا اوقات یہ سفر لمحوں میں ہوتا ہے اور کبھی مدتیں گزر جاتی ہیں۔
سوچ ہی بدلتی ہے تو ایک پکا کافر مومن باعمل بن جاتا ہے اور کبھی ایک مومن کامل خدا کے ہاں دھتکاردیاجاتا ہے،
یہی سوچ رنگ دکھاتی ہے تو پردہ نشیں کو محفل کی زینت بنا دیتی ہے تو کبھی شمع محفل کو حوروں کی سردار بنا دیتی ہے،
جب سوچ کو جالے لگتے ہیں نا توپورا معاشرہ بے حیائی، بےحجابی، غصہ، عناد، بغض، کینہ، نفرت، بےغیرتی اور بےحسی کی مکڑیوں سے بھرا دکھائی دیتا ہے،
اور جب سوچ میں نور اترتا ہے تو پوری سوسائٹی محبت، اخلاص، ہمدردی، حیا، ایثاراورخیر خواہی کے قمقموں سے منور دکھائی دیتی ہے،
یہ سوچوں کو لگی دیمک ہی تو ہےکہ محبت جیسے پاکیزہ اور جائز جذبے کو سر راہ رول دیا گیا اور سگے رشتے ہی اعتبار کھو بیٹھے ہیں۔
حیا تو اسلام کا شعار ہے، یہ ایک سوچ ہے، ایک عقیدہ اور اصول ہےیہ سوچ جب معاشرے میں عام ہوتی ہے تو باحیا، باوصف کردار چلتے پھرتے نظر آتے ہیں۔
آج دشمن ہماری اسی سوچ کو کھرچنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگائے ہوئے ہیں پوری قوم کو مختلف خرافات میں ڈال رکھا ہے کبھی فیشن کے نام پر اور کبھی فیسٹیولز کےنام پرکبھی غیر اسلامی تہواروں کو رواج دیکر اور کبھی مردوزن کی غیر شرعی دوستیاں بڑھا کر، کبھی میرا جسم میری مرضی جیسے متعفن نعرے لگا کر، کبھی حلال رشتوں کو سرعام بوس وکنار کروا کر، کبھی منگنی اور نکاح کے بعد انڈراسٹینڈنگ کے نام پر کھلی چھوٹ دیکر، کبھی بل بورڈز پر عورت کو عریاں کر کے، کبھی فلموں ڈراموں میں جائز رشتوں کو رسوا کر کےتو کبھی لڈواسٹاراورٹک ٹاک جیسے گندےکھیلوں میں الجھا کر،
برقعے سے چادر
چادر سے دوپٹے
دوپٹے سے بے حجابی تک کےسفر کے لیے کوئی مدتیں نہیں لگیں سوچ بدلی ہے منظر بدل گیا ہے،
کہاں تک سنو گے؟ کہاں تک سناؤں؟
حیا ہمارا وصف ہے یہ کلچر ہے ہمارا خدارا ! اس کی حفاظت کریں اماں عائشہ و بی بی فاطمہ رضی اللہ عنھما کو اپنی جوان بچیوں کے آئیڈیل بنائیں، جوان ہوتےبیٹوں کو یوسف علیہ السلام اور محمدﷺ کے کردار کے سانچوں میں ڈھال دیں۔
یہ فتنوں کادور ہے، ایمان کی آزمائش کا دور ہے، اس دور میں ہماری پناہ گاہ قرآن وسنت کے محفوظ گھر ہیں اور سچ میں صرف یہی ہمیں بچا سکتے ہیں، ورنہ آج تو بند کمروں اور لحافوں کے اندر بھی ہم اس چھوٹے آلے کی وجہ سے اپنی حیا کو نہیں بچا پا رہے،
اپنے کردار پر ڈال کرپردہ اقبال
ہرشخص کہہ رہاہےزمانہ خراب ہے
تبدیلی آپ سے ہے تبدیلی مجھ سےہے،آپ کی اور میری سوچ مل کر گھڑے گی ان شاءاللہ پختہ کردار،
دیر کس بات کی آج ہی اور ابھی کے اصول پر چلتے ہوئےاپنی سوچوں کو درست رخ دیجیے ۔
پھر عقیدے بھی مضبوط ہوں گے اور نئے اصول بھی وضع ہوں گے، کارکردگی بھی بڑھے گی اور نئے کردار بھی تشخیص ہوں گےاور جب بدلیں گے کردار، گھر بھی پر سکون ہوں گےاور رشتےبھی عزت و احترام سےمہکیں گے۔ تربیت ایک مقصد اور زندگی خوشیوں کا گہوارہ ہو گی۔ ان شاءاللہ