پاکستان کی بحری افواج کے زیر اہتمام 8 ویں کثیر القومی بحری امن مشقوں کا آغاز جمعتہ المبارک سے ہوچکا ہے جو کہ 14 فروری تک جاری رہیں گی۔ گہرے پانیوں میں موجود رہ کر پاک سرزمین کی حفاظت کرنے والی پاک بحریہ نے 2007 ء سے کثیر القومی امن مشقوں کے انعقاد کا آغاز کیا تھا جو ہر دو سال بعد منعقد ہوتی ہیں۔ سال 2007 ء میں اپنی نوعیت کی ان منفرد مشقوں میں 28 ممالک کی بحری افواج نے حصہ لیا تھا اور ہر سال ان ممالک کی تعداد میں اضافہ ہورہاہے۔ پاک بحریہ کی آٹھویں کثیر القومی امن مشقوں میں 50 سے زائد ممالک کے نمائندگان بحری اثاثوں ، مبصرین اور سینئر افسران کے ساتھ شریک ہیں۔
ان مشقوں کا مقصد شریک ممالک کی بحری افواج کے مابین تعاون اور مشترکہ کارروائیوں کے دوران استعداد کار میں اضافہ کرنا ہے تاکہ بحرہند میںامن اور سلامتی کو موثر طور پر قائم کیا جاسکے۔ کراچی کے ساحل پر منعقدہ بحری مشقوں کی پروقار تقریب کا آغاز 50 ممالک کی پرچم کشائی سے کیا گیا، تقریب کے مہمان خصوصی کمانڈر پاکستان فلیٹ وائس ایڈمرل اویس احمدبلگرامی تھے، جنہوں نے اپنے خطاب میں تمام معزز مہمانوں کو خوش آمدید کہتے ہوئے کہا کہ امن مشق کا مقصد دوستی اور پارٹنر شپ کو فروغ دینا ہے، میری ٹائم سکیورٹی تمام ملکوں کیلئے بہت اہم ہے، بحری سکیورٹی کیلئے مل کر کام کرنا پڑے گا، امن مشق کے ذریعے ہم دنیا میں امن لانے کیلئے اپنی کوششیں کریں گے۔ اس موقع پر سربراہ پاک بحریہ محمد امجد خان نیازی نے اپنے پیغام میں کہا کہ امن مشقوں میں 50 ملکوں کے دوستوں کو خوش آمدید کہتے ہیں، امن، ہم آہنگی اور استحکام کیلئے آگے بڑھنے والوں کا خیر مقدم کرتے ہیں، ان مشقوں کا مقصد علاقائی امن و سلامتی کو یقینی بنانا ہے۔ میری ٹائم سکیورٹی کو غیرروایتی خطرات کا سامنا ہے، ماحولیاتی تبدیلی نے سمندری ماحول پر گہرے اثرات مرتب کئے ہیں۔ پاک بحریہ ہمیشہ سے عالمی امن اور سلامتی کیلئے ہر اول دستے کا کام کرتی رہی ہے۔
امن مشقیں بحری سفارتکاری، علاقائی بحری سلامتی، تعاون اور اشتراک میں مدد گار، اور باہمی تجربات سے استفادہ کرنے سمیت تمام چیلنجزسے نمٹنے،خطرات کیخلاف مشترکہ آپریشنز کی استعداد کاراور جوابی کارروائیوں کی صلاحیتوں میں اضافے کی کلیدی اہمیت کی حامل ہوں گی۔ بندرگاہوں کے تحفظ، کھلے سمندر میں خطرات سے نمٹنے اور امدادی آپریشنز کیلئے مشترکہ مشقیں بھی کی جائیں گی۔ بحر ہند کی اہمیت صرف اس وجہ سے نہیں کہ بحرالکاہل اور بحر اوقیانوس کے بعد یہ دنیا کا تیسرا بڑا سمندر ہے بلکہ زمانہ قدیم سے آج تک اسے مشرق اور مغرب کے درمیان ایک عظیم تجارتی شاہراہ کی حیثیت حاصل رہی ہے۔ موجودہ دور میں بحرہندکی معاشی، دفاعی اور سیاسی اہمیت اور بھی بڑھ چکی ہے کیونکہ اس میں گزرنے والی بحری شاہراہوں پر کھربوں ڈالر مالیت کے سامان سے لدے ہوئے ہزاروں جہازہر موسم میں اپنی منزل کی طرف رواں دواں رہتے ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق دنیا کے مختلف ممالک کے زیر استعمال تیل کی 80 فیصد سے زائدمقدار بحر ہند کے مختلف حصوں میں واقع تنگ آبی گزرگاہوں مثلاً مشرق میں آبنائے ملاکا اور مغرب میں آبنائے ہرمز اور باب المندب کے ذریعے جاپان، چین، بھارت، پاکستان، یورپ اور امریکہ پہنچتی ہے۔ اس بنا پر بحر ہند ایک ایسا سمندر ہے جس سے تقریبا ًدنیا کے تمام ممالک کے مفادات وابستہ ہیں مگر جن ممالک کے لئے اس سے گزرنے والی آبی شاہراہوں کی حفاظت اور کھلے سمندر میں جہازوں کی بلا روک ٹوک آمدورفت سب سے زیادہ اہم ہے۔ وہ ممالک جن کے ساحلوں کو اس سمندر کا پانی چھوتاہے ان میں پاکستان بھی شامل ہے۔ اس حقیقت کے پیش نظرپاکستان کی 80 فیصد سے زیادہ بیرونی تجارت بحر ہند اور اس سے ملحقہ بحیرہ عرب کے ذریعے ہوتی ہے۔ پاکستان کے لئے نہ صرف اس کی تقریباً ایک ہزار کلومیٹر طویل ساحل کی حفاظت بلکہ کھلے سمندروں میں تجارتی جہازوں کی بلا روک ٹوک آمدورفت ایک انتہائی اہم ٹاسک ہے۔ یقینا امن 2023 ء مشقوں کے دوران قائم ہونے والے روابط اور حاصل شدہ تجربات شریک ممالک کے باہمی تعاون میں اضافے کا باعث اوربحری افواج کے کثیر القومی ماحول میں آپریشنز کے انجام دینے کی صلاحیتوں میں اضافے کا باعث بنیں گے۔
پاکستان کو اسکے محل وقوع کے باعث کئی میری ٹائم چیلنجز کا سامنا ہے، دنیا کے تین اہم خطوں مشرق وسطی، سینٹرل ایشیاء اور جنوبی ایشیاء کے سنگم پر واقع اور انرجی گلوبل ہائی وے خلیج عمان اور آبنائے ہرمز کی قربت کی وجہ سے پاکستان خصوصی اہمیت کا حامل ہے جبکہ اسکے ساتھ ساتھ پاک چین اقتصادی راہداری اور گوادر بندرگاہ کے آپریشنل ہونے کے بعد شمالی بحیرہ عرب میںسمندری سرگرمیاں کئی گنا بڑھنے کا قوی امکان ہے۔ ہند میں بحری سکیورٹی کے چیلنجز کے پیش نظربحری افواج کے درمیان تعاون لازمی ہو چکا ہے تاکہ خطرات کا سدباب کیا جائے۔ پاکستان بحیرہ عرب میں سمندری سفر کو محفوظ بنانے اور قانونی سمندری نظم کو برقرار رکھنے اور آزادانہ سمندری نقل و حرکت کو یقینی بنانے کیلئے پرعزم ہے۔
بحری مشقوں کا مقصد شامل ممالک کے درمیان ہم آہنگی، امن کا فروغ، بحری استحکام، مشترکہ کارروائیوں کی صلاحیتوں میں اضافہ اور مثبت تصور کو اجاگر کرنا ہے، جبکہ پاکستان کے کسی بھی ملک کیخلاف کبھی جارحانہ عزائم نہیں رہے۔ حالیہ مشقوں کا بنیادی مقصد میری ٹائم سکیورٹی کے ایک ایسے نظریے کو فروغ دینا ہے، جس کی بنیاد اجتماعی کوشش پارٹنرشپ پر رکھی گئی ہو تاکہ تجارتی اور دفاعی مقاصد کے لئے بحرہند ایک پرامن اور محفوظ سمندر بن جائے۔ ان مشقوں میں عالمی افواج کی بھر پور شرکت اس امر کی بھی دلیل ہے کہ دنیا کی جدید، باصلاحیت اور طاقتور ممالک خطے میں قیام امن کے سلسلے میں کی جانے والی پاک بحریہ کی کاوشوںکو ثمر آور مانتے ہیں اور بحری امن و استحکام کے لئے پاک بحریہ کی ان کاوشوں کا بھر پور ساتھ دینے کو تیار ہیں۔