اسلام معاشرے میں بھلائی پھیلانا چاہتا ہے۔ برائی اور بے حیائی کی روک تھام کرنا چاہتا ہے۔ اس لیے ہمیں اللّٰہ اور اس کے رسول نے زندگی کے ہر شعبے میں حیاء اختیار کرنے کا حکم دیا ہے۔ ویلنٹائن ڈے منانا سراسر بے حیائی ہے۔ کسی طرح بھی اس کی ترویج کرنا اور سراہنا بھی بے حیائی میں ہی شمار ہوگا۔
ارشاد نبوی ﷺ ہے: بے حیائی جس چیز میں ہوتی ہے اسے عیب دار بنا دیتی ہے اور حیاء جس چیز ہوتی ہے، اسے زینت بخشتی ہے۔(مسنداحمد:9225)۔ یہ بھی فرمایا: حیاء اور ایمان ہمیشہ اکھٹےرہتےہیں۔ جب ان میں سے کوئی ایک اٹھا لیا جائے تو دوسرا خود بخود اٹھ جاتا ہے۔ (مشکوة)۔
اگر ہم اپنےایمان کو عزیز رکھتے ہیں تو ضرور ہم اپنے اندر موجود حیاء کی حفاظت کریں گے۔ کتاب الٰہی ہمیں سکھاتی ہے کہ نامحرم سے کیسا معاملہ کرنا چاہیے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : اے نبی ﷺ مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، یہ اُن کےلیےزیادہ پاکیزہ طریقہ ہے، جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ اُس سےباخبر رہتا ہے۔ (سورہ النور:30)۔
قرآن میں نظر کی حفاظت کے فوراً بعد شرمگاہ کی حفاظت کا حکم دیا گیا گویا پاکدامنی کی پہلی شرط نظر کی حفاظت ہے۔ ہمیں قرآن نے نامحرموں سے غیر ضروری گفتگو کرنے سے بھی منع کیا ہے لیکن اگر مجبوراً بات کرنی پڑے تو اس کے بھی آداب بتائے گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: اگر تم اللہ سے ڈرنے والی ہو تو دبی زبان سے بات نہ کیا کرو کہ دل کی خرابی کا مُبتلا کوئی شخص لالچ میں پڑ جائے، بلکہ صاف سیدھی بات کرو ‘‘(سورہ الاحزاب:32)۔
اس سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ اسلام میں غیر محرموں سے چھپی آشنائی کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ دوسرے الفاظ میں مسلمانوں کے لئے ویلنٹائن ڈے منانا کسی طرح بھی جائز نہیں۔ مسلمانوں کو حیاء کا مظہر ہونا چاہیے۔ مسلمانوں کے اخلاق و کردار ، گفتگو، اٹھنےبیٹھنے، اوڑھنے، غرض ہر چیز میں حیاء نظر آنی چاہیے۔ اس لیے کیونکہ ارشاد نبوی ہے۔ ہر دین کا کوئی امتیازی وصف(صفت) ہوتا ہے اور اسلام کا امتیازی وصف حیاء ہے۔
اب اگر اسلام کا امتیازی وصف مسلمانوں میں ہی نہیں پایا جائے گا، تو پھر کس میں پایا جائے گا؟ اور میں اپنی پیاری بہنوں سے کہتی ہوں کہ ہر ایرےغیرےکو یہ حق نہیں ہے کہ وہ آپ کی خوبصورتی دیکھے۔ آپ کی خوبصورتی اور زینت صرف خاص لوگوں کے لیے ہے اور وہ ہیں آپ کےمحرم رشتے۔ یوں ہر کسی کے سامنے اپنی خوبصورتی کا اظہار کر کےآپ اپنی خوبصورتی کو بے وقعت کر رہی ہیں۔ اور یوں آپ کے چہرے کی معصومیت آہستہ آہستہ ختم ہو جائے گی۔ نامحرموں کے سامنے زینت کے اظہارکی ممانعت کے حوالےسے اور پردے کے متعلق اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ارشاد فرمایا: وہ (مومن عورتیں) اپنا بناوٴ سنگھار نہ ظاہر کریں مگر اِن لوگوں کے سامنے۔ شوہر، باپ، سسر، اپنےبیٹے، شوہروں کے بیٹے، بھائی، بھتیجے، بھانجے، اپنےمیل جول کی عورتیں، اپنے مملوک، وہ زیرِدست مرد جو کسی اور قسم کی غرض نہ رکھتے ہوں، اور وہ بچےجو عورتوں کی پوشیدہ باتوں سے ابھی واقف نہ ہوئےہوں (سورہ النور:31)۔
اس آیت سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ عورتیں نامحرموں کے لیے میک اپ نہیں کر سکتیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تمہاری بدترین عوتیں وہ ہیں جو (نامحرموں کےسامنے) زیب و زینت اختیار کرنیوالی اور تکبر کرنےوالی ہوں ،یہی عورتیں منافق ہیں۔(سلسلہ صحیحہ:1952)۔
اس سلسلے میں کچھ والدین بھی قصوروار ہوتے ہیں کیونکہ وہ اپنے بچوں کو بچہ سمجھ کر انہیں ڈھیل دیے جاتے ہیں۔ مذکورہ بالا آیت میں جو بچے عورتوں کی پوشیدہ باتوں سے ابھی واقف نہ ہوئے ہوں۔یہ تعریف زیادہ سےزیادہ دس بارہ سال کے لڑکوں پر صادق آ سکتی ہے۔ اس سےزیادہ عمر کے لڑکے اگرچہ نابالغ ہوں، مگر ان میں صنفی احساسات بیدار ہونے شروع جو جاتےہیں اس لیےہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے بچوں کو کم عمری سے ہی حیاءکی تعلیم دیں۔ حیادار، ساتر لباس پہنائیں۔ حیادار گفتگو کرنا سکھائیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ اے ایمان والو، اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو آگ سے بچاؤ۔ (سورہ التحریم:6)۔
قرآن میں تمام پیغمبروں اور خصوصاًحضرت یوسف کی حیاءکی مثال ہمیں ملتی ہے۔ حضرت یوسف نے مشکل ترین مرحلے پر بھی اپنی حیاءکا دامن تھامے رکھا اور خواتین مصر کے جالوں سے بچنے کیلئے زندان میں جانے کو ترجیح دی۔ ایسا کرنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ حضرت یوسف کے بلند اور مضبوط پاکیزہ اخلاق کا علم مصر کہ ہر خاص و عام کو ہوگیا۔
اللہ تعالٰی نے قرآن میں جنّتی عورتوں کی سب سےنمایاں صفت حیاءبتائی ہے، اب اگر ہم جنت کے حصول میں سنجیدہ ہیں، تو کیا ہم اپنےاندر یہ صفت پیدا کرنے کی کوشش نہیں کریں گے؟ دراصل حیاء کو اختیار کرنے سے ہی انسان ایمان کی حلاوت کو محسوس کر پاتا ہے۔ حیا انسان کے وقار میں اضافہ کرتی ہے اور انسان کو سکون بخشتی ہے۔ حیاءانفرادی اور قومی اخلاق کی پاسبان ہے۔ تو پھر کیا حیاءسراپا خیر نہیں ہے؟ ہے، کیوں نہیں۔
اس لیےآئیےسب مل کر یہ کام کرتے ہیں۔ بےحیائی کو روکنے اور حیاءکو فروغ دینےکا کام۔ حیاء ہماری پہچان ہے جو کھو چکی ہے۔ آئیےاس پہچان کو دوبارہ اپنے نام کریں۔
یہ کام ہے صبح و شام کرنا، حیاء کے کلچر کو عام کرنا
قلم سے یہ انتظام کرنا، حیاء کے کلچر کو عام کرنا