دنیا بھر میں مہنگائی کے باعث ہر شخص پریشان ہے۔ سب کہتے ہیں کہ مہنگائی کم ہونی چاہئے مگر بات جب خود آتی ہے تو انسان اپنے نفعے کا سوچتا ہے۔ دوسروں کیلئے مہنگائی کم کرنے کا ہم نہیں سوچتے۔ اپنے لیے تو ہم چاہتے ہیں کہ مہنگائی ختم ہوجائے مگر ہم سب اس مہنگائی کا ایک حصہ بن چکے ہیں۔
جس سے پوچھو یہی کہتا ہے کہ میں کیا کروں؟ مہنگائی کے دور میں میں کیسے سستا فروخت کروں؟ جس کو دیکھو کوئی نہ کوئی بہانہ کرکے مہنگائی کا باعث بن رہا ہے۔ مگر جب وہ مہنگائی کرتا ہے تو اس شخص کے پاس کوئی نہ کوئی جواز بھی ہوتا ہے۔ وہی شخص جب دوسرے شخص کو مہنگائی کرتے دیکھتا ہے، تو اس کے جواز کو ناانصافی سمجھتا ہے۔
یہ حالات صرف پاکستانیوں کے نہیں بلکہ دنیا بھر کے ہیں۔ تنخواہیں 10 فیصد بڑھتی ہیں تو مہنگائی 70 فیصد بڑھ جاتی ہے۔ لوگ اپنی ضروریات کو کم نہیں کر پاتے، ضروریات مہنگائی کی طرح بڑھتی چلی جارہی ہیں۔ اس کی وجہ یہ معاشرہ ہے۔ ہم معاشرے کی تبدیلی کی طرف نہیں جاتے اور حکومت اپنے آپ کو تبدیل نہیں کرتی۔ حکومت اپنا جواز دیتی ہے جبکہ عوام کی جانب سے الگ جواز دیا جاتا ہے۔ دونوں اپنے اپنے مفاد میں نعرے لگا رہے ہوتے ہیں اور ایک دوسرے پرتنقید کی جارہی ہوتی ہے۔
کسی بھی ملک میں جائیں تو ایسا لگتا ہے کہ ہر آدمی ایک دوسرے کواس مہنگائی کا الزام دیتا نظر آتا ہے مگر یہ کب تک چلے گا؟ لوگوں اور حکومتوں کو یہ سوچنا پڑے گا کہ مہنگائی کے مسائل کا حل جنیوا کے بند کمروں میں بیٹھ کر ورلڈ اکنامک فورم پر نہیں نکل سکتا، نہ ہی آئی ایم ایف کی شرائط پر حل نکلے گا۔ ساری دنیا نے مختلف ادارے بنائے، انسانی حالات کو بہتر کرنے کیلئے اداروں کو قائم کیا گیا تاہم انہی اداروں نے حالات کو بد سے بد تر کردیا۔
آئی ایم ایف کی مثال لے لیں تو آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کیا جائے۔ کیا بجلی کی قیمت بڑھا کر عام انسان کی زندگی میں مہنگائی کم ہوجائے گی؟ کیا پاکستان کی تجارت بڑھ جائے گی؟ کیا کارخانے بنانے والے اپنی چیزیں سستی بیچ سکیں گے؟ ان سب سوالوں کا جواب شاید آئی ایم ایف کے پاس نہیں ہے، یا وہ دینا نہیں چاہتے اور اپنی شرائط منوانے پر تلے ہوئے ہیں، جیسا کہ ایک سود خور کسی کو قرض دیتے وقت اس کی جائیداد اپنے پاس گروی رکھوالیتا ہے اوراس شخص کی مجبوری پر نہ رحم کرتا ہے نہ ہی اس کے بارے میں سوچتا ہے۔
دوسری جانب آئی ایم ایف کو گیس کی قیمتوں میں اضافہ چاہئے۔ کیا گیس کی قیمتوں میں اضافے سے غریب لوگ جو اپنا چولہا جلا رہے ہیں، کم آمدنی کے باوجود کیا ان کا چولہا جلتا رہے گا؟ کیا آئی ایم ایف کو نہیں پتہ کہ پاکستانی عوام کس غربت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں؟ اور ایک پاکستانی کی روز کی آمدنی اتنی ہے جس سے وہ بہت ہی مشکل سے ایک وقت کا کھانا کھا سکتا ہے۔ آئی ایم ایف یہ نہیں سوچ رہا کہ عوام اس وقت آسائشیں نہیں مانگ رہے، صرف 3 وقت کا کھانا چاہتی ہے، مگر ان حالات میں وہ بھی میسر نہیں۔
آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ ٹیکسز بڑھا دے، خاص طور پر جی ایس ٹی۔ ہر غریب جو 100 روپے کی چیز خریدتا ہے، اس کے اوپر 17 روپے وہ ٹیکس کیلئے ادا کرتا ہے۔ اگر ایک شخص اپنے گھر کے کھانے پینے کی چیزیں 10 ہزار روپے کی خریدتا ہے۔ اس پر 1700روپے حکومت کو چلے جاتے ہیں۔ ٹیکس کا 1 فیصد بھی اوپر بڑھتا ہے تو مہنگائی مزید بڑھ جاتی ہے۔ ہر چیز پر جو امیر اور غریب عوام خریدتے ہیں، ٹیکس عائد کیا جاتا ہے۔
کیا آئی ایم ایف کو یہ نہیں پتہ ؟ آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ ڈالر کی خریدوفروخت کو آزاد چھوڑ دیا جائے۔ کیا آئی ایم ایف کو یہ علم نہیں کہ جو لوگ ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں وہ ڈالر کی خریداری کرتے چلے جا رہے ہیں تاکہ ڈالر کی کمی ہو اور اس مطالبے سے قیمت میں اضافہ ہوجائے۔
یہ بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی، کہ ہر غیر قانونی کام قانونی طریقے سے ہوتا ہے، جس کی وجہ سے اسٹاک مارکیٹ ہو، فاریکس ڈالر مارکیٹ ہو یا اناج کی مارکیٹ میں خریدوفروخت ہو، سب میں آج کل سٹے بازاری کرنے والے منافع خو ر مہنگائی کو آگے بڑھاتے ہوئے گزشتہ 70 سالوں سے ہر حکومت کے اداروں کے ساتھی بن چکے ہیں، جبھی پاکستان میں اور دیگر ملکوں میں مخصوص امیر گھرانے ہیں جو ہمیشہ امیر رہتے ہیں اور وہی گھرانے بڑی بڑی کمپنیوں کے مالک اور حکومتی عہدیداروں کی ساتھی ہوتے ہیں۔
آج دنیا بھر میں سب سے زیادہ مہنگائی بینکوں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کی وجہ سے ہو رہی ہے۔ مگر ان کے اوپر کوئی بھی گفتگو نہیں کرتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قانونی حربے استعمال کرتے ہوئے یہ لوگوں کی زبان چپ کرا دیتے ہیں۔ پاکستان کی عدالت نے ایک بہت اچھا فیصلہ کیا ہے کہ سود پر بینکاری کو ختم کرکے اسلامک بینکنگ کو صرف پاکستان میں رکھنے کا حکم دیا۔ مگر سوچنے والی بات یہ ہے کہ کیا پرانی شراب پر نیا لیبل لگا کر شراب بیچنے والوں کی طرح ہم دوبارہ سے پرانی بینکنگ کو استعمال کریں گے یا صحیح معنوں میں اسلامی بینکاری کی طرف بھی جائیں گے؟
مہنگائی ختم کرنے والے بڑے بڑے لوگ جو ایک دوسرے کو بڑے بڑے ایوارڈز، بڑے بڑے ہوٹلز میں نواز رہے ہوتے ہیں، اسے بھی آج کل کاروبار بنا دیا گیا ہے۔ ہر ایوارڈ دینے والا آرگنائزر ایوارڈ لینے والے سے 10 ہزا ر سے لے کر 10 لاکھ تک کا اشتہار چاہتا ہے اور پھر اسے ایک عالیشان ہوٹل میں بلا کر وہ ایوارڈ دیا جاتا ہے۔ میراسوال انہی لوگوں سے ہے کہ جو اشتہار دے کر اپنے لیے ایوارڈ خریدتے ہیں وہ اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں یا عوام کو؟ یہ اسی طرح ہے جیسے معیشت تبدیل کرنے کے دعویدار ماہرِ معاشیات کے چند مخصوص لوگ گزشتہ 70 سال سے حکومت میں آ کر کام کر رہے ہیں اور ہر دفعہ یہی سننے کو ملتا ہے کہ پاکستان کی مجبوری ہے جس کی وجہ سے پاکستان کو قرضے لینا پڑتے ہیں اور پاکستان کی غربت ان شرائط کی وجہ سے کبھی ختم نہیں ہوسکی۔
ماہرِ معاشیات اس شخص کو کہا جاتا ہے جو اپنے مخصوص ذرائع کے مطابق ایسے منصوبے بنائے جو انسان کے کاروبار اور ملک کو کامیابی کی طرف لے چلے۔ ذرا سوچئے گا کہ مہنگائی ختم کرنے میں آپ نے کتنا حصہ ڈالا اور حکومت نے کتنا؟ اور ایک دوسرے پر الزام لگانا بند کردیں۔ نہ مہنگائی ہی کوئی جواز بیان کریں۔ صرف مہنگائی کو ختم کریں۔