ماہ رجب کی ایک بڑی فضلیت یہ ہے کہ اس ماہ مبارک میں نبی کریم ﷺ کو معراج کی رات فرضیت نماز کا حکم دیا گیا۔ بعثت کے گیارہویں سال 27 رجب المرجب بروز پیر کی نوربھری رات پیکر انوار، تمام نبیوں کے سردار خاتم النبیین محمد ﷺ براق پر سدرۃ المنتہیٰ اور وہاں سے مقام بالا پر رونق افروز ہوئے، جہاں جگہ تھی نہ زمانہ، بس اسے لامکاں کہا جاتا ہے ۔ یہاں اللہ ربّ العزت نے اپنے پیارے محبوب کو وہ قُربِ خاص عطا فرمایا جو کہ نہ کسی کو ملا ہے نہ ملے گا۔ اور صرف نماز ہی دین اسلام کا ایک ایسا عظیم رُکن ہے جسکی فرضیت کا اعلان زمین پر نہیں بلکہ ساتوں آسمانوں کے اوپر بلند واعلیٰ مقام پر معراج کی رات ہوا، نیز اس کا حکم حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ذریعہ نبی اکرم ﷺ تک نہیں پہنچا، بلکہ اللہ تعالیٰ نے فرضیت ِ نماز کا تحفہ بذاتِ خود اپنے حبیب محمد ﷺ کو عطا فرمایا۔
قرآن مجید فرقان حمید اور احادیث مبارکہ میں نماز کی مسلمہ اہمیت وفضیلت کو کثرت سے ذکر کیا گیا ہے جن میں نماز کو قائم کرنے پر بڑے بڑے وعدے اور ضائع کرنے پر سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔ نماز، ایمان کے بعد اسلام کا اہم ترین رُکن ہے قرآن وحدیث میں اس اہم اور بنیادی فریضہ کی ادائیگی کی تاکید کو کثرت سے بیان کیا گیا ہے۔ صرف قرآنِ پاک میں تقریباً سات سو مرتبہ، کہیں اشارۃ ً اور کہیں صراحۃً مختلف عنوانات سے نماز کا ذکر ملتا ہے۔ نماز کی ادائیگی کے بارے میں قرآن کریم کر سورۂ العنکبوت کی آیت نمبر ۴۵ میں اللہ ربّ العزت فرماتے ہیں ’’ جو کتاب آپ پر وحی کی گئی ہے اسے پڑھیئے اور نماز قائم کیجئے، یقینا نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے۔‘‘ نماز میں اللہ تعالیٰ نے یہ خاصیت وتاثیر رکھی ہے کہ وہ نمازی کو گناہوں اور برائیوں سے روک دیتی ہے مگر ضروری ہے کہ اس پرپابندی سے عمل کیا جائے اور نماز کو اُن شرائط وآداب کے ساتھ پڑھا جائے جو نماز کی قبولیت کے لئے ضروری ہیں،جیسا کہ حدیث میں ہے کہ ایک شخص نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں آیا اور کہا کہ فلاں شخص راتوں کو نماز پڑھتا ہے مگر دن میں چوری کرتا ہے تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ ُاس کی نماز عنقریب اُس کو اس برے کام سے روک دے گی۔ (مسند احمد) ‘‘ سورۂ البقرۃ کی آیت نمبر ۱۵۳ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’اے ایمان والو! صبر اور نماز کے ذریعہ مدد چاہو، بیشک اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
سورۂ المائدہ کی آیت ۱۲میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں تمہارے ساتھ ہوں اگر تم نماز قائم رکھوگے اور زکوٰۃ دیتے رہوگے۔ ‘‘ یعنی نماز کی پابندی کرنے سے بندہ اللہ تعالیٰ کے بہت زیادہ قریب ہوجاتاہے جیسا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا بندے کو اللہ تعالیٰ کا سب سے زیادہ قرب سجدے کی حالت میں حاصل ہوتا ہے۔ ‘‘ قرآن کریم میں ہی ارشاد ربانی ہے’’ یقینا ان ایمان والوں نے فلاح (کامیابی) پائی جو اپنی نماز میں خشوع کرتے ہیں۔ اور جو اپنی نماز کی خبر رکھتے ہیں، یہی وہ وارث ہیں جو (جنت) الفردوس کے وارث ہوں گے جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ (سورۂ المؤمنون) ‘‘۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’قیامت کے دن آدمی کے اعمال میں سب سے پہلے فرض نماز کا حساب لیا جائیگا۔ اگر نماز درست ہوئی تو وہ کامیاب وکامران ہوگا، اور اگر نماز درست نہ ہوئی تو وہ ناکام اور خسارہ میں ہوگا۔
حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن نبی اکرم ﷺ نے نماز کا ذکر فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا جو شخص نماز کا اہتمام کرتا ہے تو نماز اس کے لئے قیامت کے دن نور ہوگی، اس (کے پورے ایماندار ہونے) کی دلیل ہوگی، اور قیامت کے دن عذاب سے بچنے کا ذریعہ ہوگی۔ اور جو شخص نماز کا اہتمام نہیں کرتا اس کے لئے قیامت کے دن نہ نور ہوگا، نہ اس (کے پورے ایماندار ہونے) کی کوئی دلیل ہوگی، نہ عذاب سے بچنے کا کوئی ذریعہ ہوگا۔ اور وہ قیامت کے دن فرعون، قارون، ہامان اور ابی بن خلف کے ساتھ ہوگا۔ (صحیح ابن حبان ، طبرانی، بیہقی، مسند احمد)‘‘ علامہ ابن قیم ؒنے (کتاب الصلوٰۃ) میں ذکر کیا ہے کہ ان کے ساتھ حشر ہونے کی وجـہ یہ ہے کہ اکثر ان ہی باتوں کی وجـہ سے نماز میں سستی ہوتی ہے جو ان لوگوں میں پائی جاتی تھیں۔ پس اگر اسکی وجہ مال و دولت کی کثرت ہے تو قارون کے ساتھ حشر ہوگا، اور اگر حکومت و سلطنت ہے تو فرعون کے ساتھ، اور وزارت یا ملازمت ہے تو ہامان کے ساتھ، اور تجارت ہے تو ابی بن خلف کے ساتھ حشر ہوگا۔ جو لوگ اپنے آپ کو مسلمان کہنے کے باوجود بالکل نماز ہی نہیں پڑھتے یا کبھی کبھی پڑھ لیتے ہیں، وہ غور کریں کہ ان کا انجام کیا ہوگا۔ اللہ پاک اس برے انجام سے ہماری حفاظت فرمائے، اور ہمیں خشوع و خضوع کے ساتھ باجماعت نماز ادا کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین۔