تالیوں کی گونج میں وہ اپنی نشست سے اٹھ کر اسٹیج پر پہنچے، روایتی سلام دعا کے بعد کشمیر کے موضوع پر شعر کہہ کر انہوں نے غیر روایتی انداز میں جب حاضرین سے سوال کیا کہ آج کا دن یعنی 5 فروری کیوں منایا جاتا ہے تو جواب میں موت کی سی خاموشی نے انہیں حیران پریشان کر دیا۔ وہ اپنے سوال پر شرمسار سے ہوئے، گویا کہ کوئی جرم سرزد ہو گیا ہو۔ انہوں نے سوچا “شاید وہ کوئی غلطی کر بیٹھے ہیں، ہزار کے اس مجمعے میں ایک فرد بھی ایسا نہیں جو اعتماد سے جواب دے سکے۔
وہ ایک ریٹائرڈ اسکول ہیڈ تھے اور انہیں اسی ہائی اسکول کے حاضر سروس اساتذہ و طلباء نے آج کی تقریب کا اعزازی مہمان خصوصی بلایا تھا۔ وہ ہمیشہ کی طرح وقت پر پہنچ گئے تھے مگر اسکول کے گراؤنڈ میں ابھی اسٹیج تیار کیا جا رہا تھا، کشمیری ترانے “میرے وطن تیری جنت میں آئیں گے اک دن، اور دنیا کے منصفو ، سلامتی کے ضامنو ۔۔ ” لاؤڈاسپیکر پر وقتاً فوقتاً گونجتے رہے۔ پھر پروگرام کا آغاز کر دیا گیا۔ تلاوت و نعت کے بعد گرجتی برستی تقاریر ہوئیں، نغمے پیش کیے گئے اور ٹیبلوز میں اظہارِ یکجہتی کیا گیا، بچوں نے کالی پٹیاں بازوؤں پر باندھ رکھی تھیں اور وہ وقتاً فوقتاً نعرے بھی لگاتے تھے۔ نہ جانے کیوں یہ سب انہیں نمائشی سا لگ رہا تھا اور نعرے بھی کھوکھلے اور دھیمے سے، پھر انہیں اسٹیج پر خطاب کے لیے بلایا گیا۔
وہ اسٹیج پر آ کر ایک سوال کر کے اب شرمسار تھے جن نسلوں کو انہوں نے پڑھایا تھا شاید یہ انکی اولادیں ہیں یا انکی اولادوں کی اولادیں ہیں، انہیں تو سب بتایا تھا، وہ تو سب جانتے تھے، مگر آج اس اسکول اسمبلی میں بیٹھے یہ نوجوان کچھ نہیں جانتے شاید ! انہوں نے اپنی عینک اتار کر دایاں ہاتھ عالم پریشانی میں سر پر پھیرا اور یوں گویا ہوئے ! “میرے پیارے بچو ابھی آپ نے ایک ٹیبلو دیکھا جس میں نظر بند کشمیری راہنماؤں کو دکھایا گیا تھا۔ ان میں ایک نام سید علی گیلانی کا تھا، آپ جانتے ہیں کہ وہ عظیم ہستی کون تھی؟ جواب میں پھر سے مکمل خاموشی نے ا نہیں غم زدہ کر دیا۔
انہوں نے اس بچے کو جو سید علی گیلانی بنا تھا اسٹیج پر بلا لیا، وہ ابھی سید علی گیلانی کے کاسٹیوم میں ہی تھا وہ اس بچے کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولنا شروع ہوگئے اور سید صاحب کا تعارف پیش کیا، پھر میر واعظ عمر فاروق کو بلایا اور ان کا تعارف پیش کیا، پھر یاسین ملک کو، پھر سید صلاح الدین، پھر مقبول بٹ شہید، پھر عبد القدیر پھر برہان وانی شہید کا تعارف پیش کیا۔ کشمیر کی 75 سالہ جدوجہد کی داستان سنائی۔
اپنے خطاب میں انہوں نے کہا کہ پانچ فروری کے دن پاکستان میں نوجوان کرکٹ کھیل کر، مرد حضرات اپنے اور بہن بھائیوں کے سسرالی رشتہ داروں سے ملاقاتیں کر کے جبکہ خواتین کپڑے دھو کر گزار دیتی ہیں۔ اس بات پر حاضرین کی دبی دبی مسکراہٹ سنائی دی جس میں زرا شرمندگی سی بھی چھپی تھی۔ انہوں نے کہا کہ تقریروں میں آپ کشمیر کو اپنے بازوئے طاقت سے چھڑانے کی باتیں سن رہے تھے مگر عملاً تو آپ کے نعرے بھی اتنے دھیمے تھے کہ انکی آواز آپ کے اسکول گیٹ سے باہر نہ گئی ہو گی۔ انہوں نے بچوں و اساتذہ اکرام کو سمجھایا کہ آج کا دن محض تقاریر کرنا نہیں بلکہ اسکی اصل روح اپنے دل میں حب الوطنی اور حب اسلام پیدا کرنا ہے۔ اپنی اسلامی تاریخ کو یاد رکھنا اور حقائق سے آگاہی رکھنا ہے۔ پانچ فروری کی اصل تاریخ جان کر اور شہدا کی داستان سن کر حاضرین کی آنکھوں میں آنسو جھلملانے لگے۔
انہوں نے آخر میں نوجوان بچوں سے فرمائش کی کہ آئیے اب مل کے نعرے لگاتے ہیں۔ انہوں نے اپنی خمیدہ کمر زرا سیدھی کی، بازو ہوا میں لہرایا اور مائیک میں زور سے بولے !
کشمیر بنے گا ؟
فلک شگاف جواب آیا
” پاکستان “
انہیں اپنی کمر کا جھکاؤ ختم ہوتا دکھائی دیا، اور بوڑھی رگوں میں خون کی گردش تیز محسوس ہوئی۔ اب کہ وہ بولے
کشمیر کی آذادی تک !
جواب آیا،
“جنگ رہے گی، جنگ رہے گی “
کشمیریوں قدم بڑھاؤ !
ہم تمہارے ساتھ ہیں “
ہم کیا چاہتے ہیں !
” آزادی “
ہم کہا چاہتے ہیں !
” آزادی “
وہ مائیک چھوڑ کر اسٹیج سے نیچے اتر رہے تھے اور مطمئن تھے کہ اب ان نعروں میں واقعی جان تھی۔ کیونکہ جب پتہ چل جائے کہ نعرہ کیوں لگا رہے ہیں تو اس میں جان بھی آ جاتی ہے۔