27 رجب المرجب، زمين سے آسمانوں تک کا سفر، جہاں نبی آخری الزماں ﷺ کی خالق کائنات سے ملاقات ہوئی، جنت اور دوزخ کا عینی مشاہدہ کروایا گیا، سفر معراج عقيدہ آخرت پر مکمل دلالت کرتا ہے، روز آخر کہ جہاں اچھے برے اعمال کی جواب دہی ہو گی، جزا اور سزا ہو گی، سفر معراج میں معاشرتی اور اخلاقی برائيوں پر سخت وعيد سنائی گئی، حقوق العباد پہ سخت پوچھ گچھ دکھائی گئی۔
آخر اس سفر کا مقصدکيا تھا ؟
کلام پاک کی طرح معراج کا پورا سفر بھی اللہ تعالیٰ حضرت جبرائيل عليہ السلام کے ذريعے سے وحی فرما ديتے اور فرما بھی سکتے تھے، مگر رب کائنات نے آپ ﷺ کو جنت اور دوزخ کا عینی مشاہدہ کروايا، تاکہ آپ ﷺ پورے وثوق، يقين اور واضح الفاظ ميں دنيا کے فانی ہونے کی گواہی دے سکيں، اچھے اعمال پر جنت کی بشارت دے سکيں اور برائی پر جہنم کے عذاب کی وعيد سنا سکيں، اسی ليے پيارے نبی پاک ﷺ اپنی زندگی کی آخری سانس تک اللہ کے احکامات کھول کھو ل کر بيان فرماتے رہے، اپنی امت کے ليے پریشان ہوتے رہے، ان کے حق ميں ہر وقت دعا گو رہے، ان کی خير خواہی میں مشغول عمل رہے۔
آج بحیثیت مسلمان ہم اگر اپنا جائزہ ليں تو اندازہ ہوگا کہ آج ہم سب ميں عقيدہ آخرت ہی تو ختم ہوا ہے، جزا اور سزا پر ہميں یقین نہيں رہا، دنیا کی زندگی میں اتنے مشغول ہوگئے ہیں کہ آخرت بھول گئے ہیں اور اگر یاد بھی ہے تو اپنے اعمال کا ذمہ دار ہم دوسروں کو سمجھتے ہیں اور جواب دہی بھی دوسروں کے کندھوں پر ڈال ديتے ہيں ” جو ہے آج ہے” کی بنياد پر زندگياں گزار رہے ہيں “جب کل آئے گا ديکھا جائے گا” کی سوچ کے ساتھ جی رہے ہيں، حالانکہ وہ “کل” جب آئے گا تو، ديکھا نہ جا سکے گا، برداشت نہ ہو سکے گا، اسے سہ نہ پائيں گے، کہ وہاں کسی کو کسی کی پروا نہ ہوگی، سب اپنے لیے ہلکان ہو رہے ہوں گے، اے کاش ، اے کاش کی صدائیں سنائی دے رہی ہوں گی۔
سوچنے کی بات ہے کہ وہ کيا وجہ تھی ؟ پيارے نبی پاک ﷺ اپنی اُمت کے لیے اس قدر پريشان ہوتے رہے، ايک ہی لفظ زبان مبارک پر رہا ،”اُمتی” “اُمتی”۔ کیونکہ آپﷺ سفر معراج پہ جہنم کی دھکتی آگ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ آئے تھے، آج ہم پورے احترام اور عقيدت سے شب معراج تو مناتے ہيں، مگر يہ سوچتے ہی نہيں کہ اس پورے سفر کا مقصد کيا تھا ؟ اس سفر کا مقصد ايک عظيم دن یعنی روز آخر کے لیے نوع بشر کو تیار کرانا تھا۔