دستک دے کر خوش فہمی میں نہ رہنا
یہ دیوار نہیں اس کا دروازہ ہے
اپنی منشا کے مطابق نتیجہ نکالنا، ہر کام کو اپنی خواہش کے مطابق خیال کرنا خوش فہمی کہلاتا ہے۔
انسان کو جسمانی امراض کی طرح نفسیاتی امراض بھی لاحق ہوتے ہیں حرص و طمع بغض اور کینہ انہیں میں خوش فہمی بھی شامل ہے اس کی بنیاد غرور اور تکبر ہے یہ شخص اپنے آپ کو بڑا سمجھتا ہے اور اپنی بات کو حتمی تصور کرتا ہےخوش فہمی کا ہونا کوئی انہونی با ت نہیں ہے۔ ہر شخص زندگی میں اکثر اوقات نہیں تو بعض اوقات ضرور کسی نا کسی خوش فہمی میں مبتلارہتاہے ۔ بعض اوقات لوگ طرح طرح کئی کئی خوش فہمیوں میں مبتلا رہتے ہیں خوش فہمی اور غلط فہمی میں کیا فرق ہے؟ ان کا بنیادی فرق یہ ہے کہ غلط فہمی میں مبتلا شخص کے اندر کسی نا کسی صورت میں اپنی غلطی تسلیم کرنے کی گنجائش موجود ہوتی ہے جبکہ خوش فہمی میں مبتلا شخص اس صلاحیت سے قطعاً محروم رہتاہے۔ آج ہم اپنی قومی خوش فہمی کی بات کریں گے کہ اللّہ پاک ہمیں صرف نسبتوں کے سہارے ہی معاف کر دے گا عمل کی کوئی خاص ضرورت نہیں اور اگر عمل ہے بھی تو اخلاص کا نام و نشان موجود نہیں۔
انسان زندگی میں جو خوش فہمی ہوتی ہے یہ بہت مسائل پیدا کرتی ہے اللہ پر کامل ایمان رکھنا اور اس کی امید لگانا اور اس کے ساتھ اپنی زندگی کے شب و روز گزارنا یہ بہت اعلیٰ بات ہے لیکن خوش فہمی میں مبتلا ہوکر عمل کا راستہ چھوڑ دینا حق کی جدوجہد اور تقوی کا راستہ ترک کر دینا یہ انسان کو بہت دور تک لے جاتا ہے یقینا اچھی نسبت انسان کو بہت فائدہ دیتی ہے لیکن اس کے لئے بھی ایمان اور عمل کی شرط ہے اگر کسی شخص کا عقیدہ ٹھیک نہ ہو تو نسبت سے کیا فائدہ یہاں قرآن مجید جو قیامت تک انسانوں کی ہدایت کے لیے ہے کہ سورہ بقرہ میں یہودیوں کی بات کو مثال کے طور پر پیش کرتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ہم اللہ کے لاڈلے ہیں پہلے تو ہمیں کوئی عذاب ہونا ہی نہیں ہے اگر ہوا بھی تو صرف کچھ دن کے لیے ہوگا کچھ کا تو خیال آتا ہے کہ جتنے دن گائے کی پوجا کی تھی بس اتنے ہی دن کا عذاب ہو گا یہ خود ہی اپنے منہ میاں مٹھو بنتے ہیں اور خوش فہمی میں مبتلا ہے ان کو جواب بھی قرآن مجید ہی دیتا ہے کہ خالق کائنات فرماتے ہیں کہ کیا تم نے خدا سے کوئی وعدہ کیا ہے تو پھر اپنے معاہدے کے خلاف نہیں جاتا یا تم وہ بات کیوں کہتے ہو جو تم جانتے ہی نہیں حقیقت بھی یہی ہے کہ تم اتنی بڑی بات کہہ رہے ہو تمہارے پاس کوئی معاہدہ ہی نہیں ہے یا تمہیں کسی نبی نے بشارت دی ہے تو پھر تو ٹھیک ہے اگر ایسا نہیں ہے تو یہ صرف تمہاری خوش فہمی ہے اصول تو ہے کہ جس نے جان بوجھ کر برائی کی اور اس کی برائی نے اس کو گھیر لیا یہ لوگ جہنمی ہے اور اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ اگر برائیاں کرتا رہے اور اس پر قائم رہے تو یہ معاملہ بہت سخت ہے اس کے مقابلے میں جنت کا راستہ کیا ہے کیسے اللہ کی خوشنودی حاصل کی جاسکتی ہے کیسے وہ جو جنت میں نبی ﷺ کا دیدار کریں گے وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے ہیں اور نیک عمل کیے ہیں اور ان اعمال کی قبولیت کی دعائیں بھی کرتے ہیں اور برائیوں سے بچتے ہیں یہی لوگ ہی جنتی ہوں گے اور یہودیوں تمہارے خالی دعویٰ کرنے سے اور خوش فہمی میں رہنے سے تو تمہیں جنت نہیں مل جائے گی۔
اچھی نسبت بھی فائدہ دے گی جب تمہارا ایمان مضبوط ہو گا ورنہ یہ صرف منہ کی باتیں ہیں ہمارے معاشرے میں بہت سے ایسے لوگ ہیں جو نسبتوں کے دعویدار ہیں وہ بھی کان کھول کر سن لیں کہ معیار ان کے لئے بھی وہی ہے عقیدہ کی مضبوطی، ایمان کی تکمیل اور نیک اعمال اور تقویٰ کا نور ہوگا تو وہی کامیاب ہو سکیں گے ورنہ معاملہ اس کے برعکس ہوگا جہاں امام جعفر رضی اللہ تعالی عنہ اپنے شاگرد سے فرماتے ہیں کہ میرے شاگرد میرے لیے دعا کرنا انہوں نے کہا حضرت آپ حضرت علی کی اولاد ہیں سرکار علیہ الصلوۃ والسلام کے نواسے ہیں میں کون ہوتا ہوں جو آپ کے لیے دعا کر سکوں آپ نے بڑا خوبصورت جواب دیا کہ میرے شاگرد میرے مرید یہی تو تم سے دعا کروانی ہے۔ دعا کرنا میری نسبت اونچی ہے میرا نصب بڑا ہے کہ میں کل قیامت کے دن اپنے نانا کے سامنے رسوا نہ ہو جاؤ اس نسبت کی لاج رکھ لوں بے شک یہ امام کی عاجزی ہے لیکن اُمت کو سبق حاصل کرنا چاہئے کہ جن کو مان ہونا چاہیے وہ عاجزی اختیار کر رہے ہیں اسی لیے ہمیں بھی زندگی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت میں بسر کرنی چاہیے۔ ایک دانا کا قول آپ کی نظر کرتے ہوئے بات کو ختم کرتا ہوں کہ خوش فہمی جب غلط فہمی ثا بت ہوتی ہے تو انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتی۔ ذرا سوچیے !