ہم اس سال بھی پانچ فروری منانے جا رہے ہیں، ہمیشہ کی طرح جوش و خروش سے بھر پور دن، سارا دن “دنیا کے منصفو، سلامتی کے ضامنو، سن کے گزارا جائے گا، کالی پٹیاں، انسانی ہاتھوں کی زنجیر، نعرے بازی “ہم کیا چاہتے ہیں ، آزادی ” لگا کر اظہارِ یکجہتی کیا جائے گا اور فیس بک پوسٹیں، واٹس ایپ اسٹیٹس بھی کم و بیش کچھ ایسے ہی جوش وخروش کا مظاہرہ کر رہے ہونگے کہ گویا ابھی پوری پاکستانی قوم پانچ فروری کو عصر تک اپنے واٹس ایپ اور ٹویٹر کے محاذ سے بھارت کا قلعہ اکھاڑ پھینکیں گے اور کشمیری ایک آزاد قوم کی شکل دنیا میں خوش آمدید کیے جائیں گے، لیکن یہ جذبہ ایک جھاگ کی مانند ہو گا جو کہ وقتی طور پر ابھرتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ بیٹھ جاتا ہے۔ ہمارے جھاگ جیسے جذبے کبھی بھی کشمیریوں کو آزادی نہیں دلوا سکتے ۔ لوہے کے چنے چبوانے والا محاورہ پھر سے زندہ کرنا ہو گا۔ ہم میں سے ہر کسی کو سب کشمیری راہنماؤں کے پورے نام بھی پتہ نہیں ہونگے، پانچ فروری منانے کی وجہ بھی معلوم نہیں ہو گی، بائیس نوجوانوں کی آذان کی تکمیل کے لیے شہید ہونے کی داستاں سے بھی آگاہی نہیں ہو گی، حق خود ارادیت کے مفہوم کا بھی پتہ نہ ہو گا، افسوس کہ ہم پچھتر سالوں میں اپنے ملک کے مسائل نہ حل کر سکے، الٹا ان میں اضافہ ہی کیا۔ جس کے اپنے گھر میں لڑائی ہو وہ پڑوسی کے مسائل حل کیسے کرے گا ۔ اس کا تو الٹا مذاق اڑایا جائے گا کہ،”پرائی کیا پڑی تجھے ، اپنی نبیڑ تو”
تو کس منہ سے ہم کشمیریوں کے حق میں اس قدر لمبی لمبی چھوڑ تے ہیں، ان تمام باتوں کے باوجود کہ یہ محض خالی خولی نعرے ہیں، کسی مظلوم قوم کے مشکل وقت میں اس سے ہمدردی کرنا، اس کا دن منانا، ظالم کو للکارنا بجائے خود ایک نیکی ہے تو سہی مگر کب تک محض کھوکھلے نعروں سے آزادی کی کوشش کرتے رہیں گے، آذاد کشمیر کے قومی ترانے میں یہ الفاظ شامل ہیں کہ
تم بھی اٹھو اہل وادی
علم بغاوت کا لہرا کر
اہل وادی تو اپنی بساط بھر کوششیں جاری رکھے ہیں، لاکھوں لوگ شہید کر دیے گئے ہیں، خواتین اپنی عصمتیں قربان کر رہی ہیں، بچوں کو بھی نہیں چھوڑا جاتا، سخت ترین کرفیو اور کشمیری راہنماؤں کی نظر بندی الگ سے غیر انسانی فعل ہے۔ مظفر وانی جیسے جوان رعنا کی شہادت آزادی کا پیش خیمہ ثابت ہو گی ان شاء اللہ ۔
بحیثیت مسلم ہمیں یہ بات سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ وہ طاغوتی طاقتیں جو ایک جانور کے حقوق کے لیے آواز اٹھاتی ہیں وہ کشمیر، فلسطین، برما اور دوسرے تمام مظلوم مسلم ممالک کی غلامی کے خلاف آواز کیوں نہیں اٹھاتیں، طاقت تو انکے پاس ہے اگر وہ چاہیں تو بزور شمشیر اقوام متحدہ کے زریعے ان ظالموں کو روک سکتے ہیں مگر وہ ایسا کبھی نہیں کریں گے وہ کبھی بھی اسلام کو مظبوط ہوتا اور سر اٹھاتا نہیں دیکھ سکتے۔ وہ کبھی ہمارے ہمدرد نہیں ہو سکتے، اس لیے غیروں کی طرف نگاہیں کرنے کی بجائے اپنی تدبیروں سے کام لینا ہو گا۔
طاقت کی صداقت کے آگے باتوں کی حقیقت کیا ہو گی
قدرت کے اصول زریں کی تضحیک نہ کر تحقیر نہ کر
مغرب کے سیاستدانوں سے امید نہ رکھ آزادی کی
یا طاقت سے کشمیر چھڑا یا آرزوئے کشمیر نہ کر