جس خاک کے ضمير ميں ہے آتشِ چنار
ممکن نہيں کہ سرد ہو وہ خاکِ ارجمند
مسئلہ کشمیر کی پیدائش ہندوستان کی غیر منصفانہ تقسیم کا شاخسانہ ہے۔ پچھتر سالہ جدو جہد کئی نشیب و فراز سے گزری۔ لاکھوں جوانوں نے شہادت پیش کی۔ ہزاروں خواتین بیوگی کے دُکھ سے گزریں۔ لاکھوں معصوموں نے یتیمی کی تلخیاں دیکھیں ۔ بے شمار والدین آنکھوں میں انتظار کے دیپ جلائے، دلوں میں ان بیٹوں کی واپسی( جوہندوستان کی قابض افواج کے عقوبت خانوں میں زندگی ہار چکے) کی جوت جگائے قبروں میں جا سوئے۔ اب 2010ء کے بعد ایک ایسی نسل جواں ہو چکی جو ان مظالم کو برداشت نہ کرنے کا عزم لے کر اُٹھی، آزادی کا جذبہ جس کے جسم میں خون کی طرح متحرک ہے۔ تو انڈیا کی حکومت بھی نئے سازشی جال لے کر سامنے آئی۔
5 اگست 2019 کو مقبوضہ کشمیر کا متنازعہ اسٹیٹَس بدلنے کیلئے آئین کی دفعہ 370 کو تبدیل کردیاجسکے تحت کشمیر کی آبادی کے بیلنس کو ڈسٹرب کرنے کی کوشش کی۔ سب سے پہلے کشمیریوں کو احتجاج اور اپنا ردِ عمل ظاہر کرنے سے روکنے کے لیے لاک ڈاؤن، کرفیو اور محاصرے کی حکمتِ عملی اپنائی گئی۔ مواصلات کو معطل کر دیا گیا۔ لوگوں کو گھروں میں اور رہنماؤں کو جیلوں میں نظر بند کردیا گیا۔ زندگی اور موت دونوں کو اہلِ کشمیر کے لیے آزمائش اور اذیت بنا دیا گیا۔ آخری مردم شُماری کے مطابق کشمیر میں مسلم، ہندو، سکھ اور دیگر آبادی کا تناسب کچھ اس طرح سے ہےکہ مسلم68فیصد، ہندو28فیصد، سکھ و دیگر آبادی4فیصد ہیں۔
اس تناسب کو بدلنے کے لیے آئین میں تبدیلی لا کر اُس حکمتِ عملی پر عمل درآمد کیا گیا جو اسرائیل نے فلسطینی زمینوں پر قبضے کےلئے اپنائی ہوئی ہے۔ کشمیر کا “disputed status ” جسکے تحت کوئی غیرملکی نہ تویہاں کوئی کاروبارکر سکتاہے نہ جائیدادخریدسکتاہےاورنہ ہی مستقل رہائش رکھ سکتاہے “اس” کوآرٹیکل 370 میں ترمیم کےتحت ختم کیاگیا۔ اور15لاکھ ڈومیسائل ہندوستانیوں کوجاری کئےگئے۔70-60لاکھ ہندوستانیوں کوکشمیرکی مسلم آبادیوں کےعلاقوں میں آبادکیاگیا۔ بھارتی فوج کےبعدبھارتی عوام کوبھی کشمیریوں کےگھروں میں گھسنےاورلوٹ مارکرنےکی اجازت دےدی گئی۔ اسطرح پورےمقبوضہ ِکشمیرکی ڈیموگرافی کوبدلاگیا۔ جنیواکنونشن کی کھلم کھلاخلاف ورزی کی گئی۔
اب یہ حکومتِ پاکستان کی ذمہ داری ہےکہ اس مسلئہ کےفریق کےطورپردوبارہ اقوامِ متحدہ سےرجوع کرے۔ہندوستان کےاس قدم کےخلاف سلامتی کونسل کےسامنےاس معاملےکوپیش کرےاورکشمیریوں کےحقِ زندگی اورحقِ خودارادیت کےلیےآوازاُٹھائے۔
اس معاملےمیں خارجہ پالیسی کودوبارہ تشکیل دیاجائے۔ مسلم ممالک کو ہم خیال بنا کر OIC کے ذریعےبھی بھارت پردباؤڈالاجائے۔ دیگرہم خیال اوردوسرےممالک مثلاً چین اورروس کی مددسےاقوامِ متحدہ کےذریعےمعاملےکےحل کےلئےکوشش کی جائے۔