یہودی اور عیسائی انتہا پسند لابی عرصہ دراز سے اسلام دشمنی میں سر گرم ہے ۔انہیں مغرب میں اسلام کی مقبولیت سے خوف محسوس ہوتا ہے اور دنیا میں مسلمانوں کے بلند و مستحکم وجود کے مد مقابل اپنے گھنائونے اخلاقی زوال کا شکار معاشرہ کو دیکھ کر احساس کمتری جنم لیتی ہے ۔ لہٰذ ا اسی کمپلیکس کو کو دبانے کیلئے دنیا میں اسلام کے تشخص کو مسخ کرنے کی مذموم کوششوں میں مصروف ہیں ۔ ہم جنس پرستی، ایل بی ٹی، اور کیو ، کے حقوق پر واویلا مچانے والا انسانی حقوق کا علمبردار مغرب اپنے زعم میں مبتلا ہے اورتیزی سے پھیلتے ہوئے اسلام کو مکروہ کوششوں سے روکنا چاہتاہے۔
بعض اندازوں کے مطابق 2030ء تک دنیا میں اِسلام کے پیروکاروں کی تعداد عیسائیت کے پیروکاروں سے بڑھ جائے گی، ان شاء اللہ ! مغربی دنیا اِسی لیے سراسیمگی اور خوف کا شکارہے کہ بہت جلد اِسلام دنیا کا سب سے بڑا مذہب بننے والا ہے،یہی وجہ ہے کہ مستقل سازشوں کے تحت اِسلام کا حسین اور خوب صورت چہرہ مسخ کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ لہٰذ اب وقت کا تقاضا ہے کہ عالم اسلام کے حکمران خواب غفلت سے بیدار ہو اور دنیا بھر میں مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی روک تھام کیلئے مئوثر حکمت عملی اپنائے۔
یورپین ممالک جو انسانیت پرستی کی دوہائی دیتے ہیں مسلم دشمنی میں تمام حدیں پار کر چکے ہیں ۔جو لوگ دین، قرآن مجید اور پیغمبر اکرم ﷺ کی توہین کرتے ہیں وہ درحقیقت تمام ابراہیمی مذاہب اور پوری انسانیت کی توہین کر رہے ہیں۔مغربی ملک سوئیڈن میں انتہا پسند عناصر قرآن پاک کی بے حرمتی کرکے اپنی وحشیانہ جبلت کامظاہرہ کررہے ہیں۔ سویڈن میں انتہائی دائیں بازو کی ’ہارڈ لائن‘ پارٹی کے رہنما راسموس پالوڈان نے دارالحکومت اسٹاک ہوم میں حکومتی سر پر ستی میں ترک سفارت خانے کے سامنے( نعوذ باللہ )قرآن پاک کے ایک نسخے کو آگ لگا دی۔ ترقی یافتہ مغربی ملک میں یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے قبل ازیں وہ اسی طرح کے گستاخانہ کارروائیاں منظر عام پر آچکی ہیں۔
انتہا پسند لیڈر بد بخت راسموس پالوڈان جس نے گزشتہ سال سویڈن میں پرتشدد مظاہروں کو ہوا دی تھی، ملکی دورے کے دوران سرعام قرآن پاک کی بے حرمتی کرتے ہوئے نسخے نذر آتش کئے تھے۔ دوسری جانب ہالینڈ کے انتہا پسند، انتہا پسند “پیگیڈا” تحریک کے رہنما ایڈون ویگنزفیلڈ نے گزشتہ دنوں دی ہیگ میں قرآن پاک کا ایک نسخہ پھاڑ دیا اور اس کے کچھ صفحات جلا دیئے۔ یکے بعد دیگرے ایسے گستاخانہ واقعات کا رونما ہونامحض اتفاق نہیں بلکہ منظم منصوبہ کے تحت سوقیانہ مہم جاری ہے اور اسے یورپی حکومتوں کی سر پرستی بھی حاصل ہے۔ چنانچہ گزشتہ عرصے میں یورپ کے بہت سے حصوں میں اسلام مخالف نفرت انگیز مہم بالخصوص اسلامو فوبیا میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
یورپی ممالک جہاں پر دیگر پسماندہ ملکوں کی طرح بجلی، پانی اور روزگار انتخابی ایشونہیں ہوسکتے ہیں۔لہٰذا اقتدار حاصل کرنے کے لئے یہاں شدت پسند طبقہ سراٹھارہا ہے اور مسلمانوں کو آسان نوالہ سمجھ کر ان کے ایشوز کو اچھال رہاہے۔ان ممالک میں سوئیڈن، ڈنمارک ،ہنگری،پولینڈ وغیرہ شامل ہیں۔نفرت انگیز گروپس جیسے ’’پیٹریاٹک یورپین اگینسٹ دی اسلامائزیشن آف دی آکسیڈنٹ‘‘ جسے پیگیڈا کے نام سے جانا جاتا ہے، کی مسلم مخالف مہم عروج پر ہے اور دوسرے یورپی ممالک میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیزیوں میں اہم کردار ہے ۔چونکہ پیگیڈا کی بنیاد ڈریسڈن، جرمنی میں 2014ء میں رکھی گئی تھی، اس کے انتہا پسندانہ خیالات مرکزی دھارے میں شامل سیاسی گفتگو میں شامل ہو گئے ہیں اور انتہائی دائیں بازو نے سویڈن سمیت کئی یورپی ممالک میں اہم سیاسی فوائد حاصل کیے ہیں۔ پیگیڈا اور اسی طرح کے گروہ مسلسل مسلمانوں کے خلاف نفرت پروان چڑھانے میں سر گرم ہیں۔ یہ کارروائیاں آزادی اظہار اور جمہوریت کا مظہر نہیں ہیں، بلکہ ایک بے شرمی اور جاہلانہ اشتعال انگیزی ہے جس کا مقصد مذاہب کے درمیان نفرت اور تہذیبوں کے درمیان ٹکراؤ کوہوا دینا ہے۔
آقا کریمﷺکی شان میں گستاخیوں میں یہود و ہنود و نصاریٰ کوئی کسر نہیں چھوڑرہے، کبھی گستاخانہ خاکوں، کلمات کے ذریعے اور کبھی عقیدہ ختم نبوتﷺ کو چیلنج کرنے والے ملعون قادیانیوں کی سرپرستی کرکے مسلم امہ کے مذہبی جذبات مجروح کیا جا رہا ہے۔ آئے روز یورپ کے کسی نہ کسی ملک میں مقدس ہستیوں کے توہین آمیزخاکے بھی تہذیبوں کے تصادم کی راہ کھول رہے ہیں لہٰذا ایسے میں اسلام مخالف مواد کے خلاف اسی نوعیت کی پابندی لگائی جائے جیسے’’ہولوکاسٹ‘‘ سے متعلق عائد کی گئی ہے۔ہم عالمی منظرنامہ کا جائزہ لیں تو ہمیں یہ معلوم ہو جائے گا کہ آج کس قدر نیوورلڈ آرڈر کا دجالی نظام کہیں کامیاب تر تو کہیں شکست خوردہ ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ اسی نیوورلڈ آرڈر کے استحکام کے نام پر پوری دنیا میں جس طرح مسلمانوں کا قتل عام کیا جا رہا ہے اور جس طرح اقوام متحدہ جیسے اداروں نے اس پر خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔
اس طرح یہ پتہ چلتا ہے کہ تمام عالمی ادارے اسی نیو ’’ورلڈ آرڈر‘‘ کے تحت کام کرتے ہیں اور مسلمانوں کا قتل عام اس آرڈر کی ایک کڑی ہے۔ 2004ء میں اقوام متحدہ نے Tolerance and Understanding Confronting Islamophobia: Education for کے عنوان کے تحت اپنے ایک پروگرام میں اسلاموفوبیا کے بڑھتے ہوئے اثرات کا جائزہ لیا تھا۔ 2008ء میں ورلڈ اکنامک فورم کے زیر اہتمام 21 ممالک میں منعقدہ ایک سروے کے مطابق اسلام اور مغرب کے درمیان عداوت کی خلیج دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔ یورپی کمیشن کے کونسل آف یورپ برائے نسلی امتیازات و صبر، امن و آشتی کے بیان کردہ اسلاموفوبیا کی تعریف کی روشنی میں آج مسلمان نہ صرف عقائد کی بنیاد پر بلکہ نسل کی بنیاد پر بھی امتیازی سلوک کا شکار ہے۔ حیران کن ہے کہ یورپی ممالک سویڈن اور ہالینڈ غیر انسانی اور غیر اخلاقی جھنڈے تلے وحشیانہ جرائم کی آبیاری کرتے ہیں اور اسے وہ آزادی اظہار کا نام دیتے ہیں۔ مغرب کا بڑا پرکشش تصور پیش کیا جاتا ہے، کبھی آزادی اظہار رائے کبھی انسانی حقوق کا درس دیتے ہیں، لیکن انکے سینے کدورت اور نفرت سے بھرے پڑے ہیں، نہ انکی سوچ جمہوری نہ دوسروں کے عقائد اور احساسات کا احترام کرتے ہیں۔
قرآن پاک کی بے حرمتی کے خلاف پورا عالم اسلام سراپا احتجاج ہے۔ سلام ہے اس مرد حر ترکیہ کے صدر طیب اردگان پر جنہوں نے سویڈن سے دو ٹوک کہا کہ یوکرین کے خلاف روس کی جنگ کے دوران نیٹو کے فوجی اتحاد میں شامل ہونے کی کوشش میں انقرہ کی حمایت کی توقع نہ رکھی جائے۔ بلاشبہ انہوں نے جارحانہ موقف اپنا کرصحیح معنوں میں عالم اسلام کی ترجمانی کی ہے۔ جبکہ ترکیہ نے احتجاجاً سویڈن کے وزیر دفاع کا طے شدہ دورہ بھی منسوخ کر کے غیرت ایمانی کا ثبوت دیا ہے۔ اگر او آئی سی، عرب لیگ سمیت دیگر مسلم تنظیموں میں مسلم معاشی طاقیتں بھی شامل ہیں۔ مسلم حکومتوں اور ان کی قیادت کا فرض ہے کہ وہ یکجا ہو کردنیا کو واضح، دو ٹوک پیغام دے دیں کہ توہین قرآن، توہین رسالت کی وارداتیں عالم اسلام کے خلاف صر یحاً دہشت گردی ہے۔ ان کی توانا آواز ہی تو مغرب سے بھارت تک اسلامو فوبیا کی بڑھتی لہر کا تدراک کر سکتی ہے وگرنہ یہ ناپاک سلسلہ رکنے والا نہیں۔ رحمت دو عالم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺنے ارشاد فرمایاہے کہ ’ مسلمان آپس میں ایک جسم کی مانند ہیں اگر جسم کے کسی ایک حصے میں درد ہو توپورا جسم تکلیف محسوس کرتاہے، لہٰذا عالم اسلام کے حکمرانوں کو اب خواب غفلت سے بیدار ہوکر دنیا بھر کے ممالک میں مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی روک تھام کیلئے مؤثر حکمت عملی اپنانا ہو گی۔