عام طور پر سنا اور بولا جاتا ہے ‘مردوں کا معاشرہ’۔ اگر چہ یہ الفاظ بعض اوقات کسی احساس محرومی کا نتیجہ ہوتے ہیں اور بعض اوقات نظریے اور فکر کی نا پختگی یہ الفاظ کہلاتی ہے،کبھی فیمینزم کے زیر اثر یہ کہا جاتا ہے اور کبھی حقیقتا مرد کے غیر منصفانہ رویے کے رد عمل میں کہا جاتا ہے۔
ہمیں دیکھنا ہو گا کہ ہم رائے قائم کرنے میں کتنے پختہ ہیں۔ کیا ہم فرد کی کسی ایک کمزوری کو اس کی ساری خوبیوں پر حاوی کر کے پیش کرتے ہیں یا اس کی شخصیت کا بحثیت مجموعی جائزہ لے کر ایک متوازن رائے بناتے ہیں۔ دراصل،ایک مرد کے غیر منصفانہ رویے کو بنیاد بنا کر اللہ سے شکوہ کناں ہو جانا بچگانہ اور احمقانہ رویہ ہے۔
یہ تو عام فہم بات ہے کہ کسی بھی ادارے کی بنیاد جب رکھی جاتی ہے تو ایک فرد اونر، سربراہ، نگران کی حیثیت سے مقرر کیا جاتا ہے کیونکہ اس کے علاوہ کوئی دوسری صورت ہی نہیں۔ اللہ نے جب دنیا بنائی تو سب سے پہلا ادارہ جو قائم ہوا وہ ‘خاندان’ تھا۔ خاندان کے معاملات پر ایک نگران مقرر کیا جانا ادارے کی فعالیت اور بقاء اور شناخت کے لئے ضروری تھا۔ اللہ ! جس کی حکمت کا کوئی ثانی نہیں۔، نے مرد کو اس ادارے کا سربراہ بنا دیا تا کہ وہ حالات کے سرد و گرم میں خاندان کا تحفظ کر سکے۔ جہاں تک عورت کی بات ہے تو اس کی بنیادی ذمہ داری اولاد کی پیدائش، پرورش، تربیت تھی۔ ان نازک ذمہ داریوں سے عہدہ براہ ہونا مرد کے بس کا روگ نہیں تھا۔ یہ مشقت پر صعوبت لیکن اجر وثواب سے بھرپور کام قیام، مستقل مزاجی اور چار دیواری کا متقاضی تھا، اخفاء اس کی خوبصورتی تھی۔ جذبات سے بھرپور عورت اس ذمہ داری کی اہل تھی۔ مرد کو اللہ نے سخت کوش اور مضبوط بنایا لہٰذا اس کی سوچ میں جذبات سے زیادہ حکمت کا دخل ہے، اس کے فیصلے مضبوط مگر غیر جذباتی ہوتے ہیں، اس کا مؤقف توازن سے بھرپور ہوتا ہے۔ وہ ان تمام پہلوؤں پر غور کر کے فیصلہ کرتا ہے جن پر ایک عورت جذباتی، نرم دلی اور صنف نازک ہونے کی وجہ سے غور نہیں کیا کرتی۔
کیا حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا جسمانی، ذہنی اور جذباتی لحاظ سے اس مخالفت کا براہ راست سامنا کر سکتی تھیں جس کا سامنا خود محمد ﷺ کو کرنا پڑا؟ کیا وہ مضبوط اور مستحکم فیصلے کر سکتی تھیں اس صورتحال میں؟ ہاں، تشفی ودلجوئی اور ڈھارس بندھانے کا کام ان کی فطرت اور مزاج کے عین مطابق تھا اور وہ انہوں نے بخوبی کیا۔کیا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا واقعہ افک میں اپنے ہر بہتان کی خبر پا کر چارپائی سے نہ لگ گئیں؟ کیا محمد ﷺ نے اس پورا عرصہ میں کوئی جذباتی قدم اٹھایا؟حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر شک کیا یا بہتان لگانے والوں کے خلاف فوری ایکشن لیا؟ نہیں، کیونکہ اپنی بیوی کی پاکدامنی کا یقین ہونے کے باوجود ایسا کرنا منافقین کو غیر اخلاقی حملے کرنے پر شہ دے دیتا اور وہ طوفان بدتمیزی اٹھا دیتے۔ آپ ﷺ نے جذبات پر دانش کو مقدم رکھا اور مختلف افراد سے آپ رضی اللہ عنہا کی پاکدامنی کی گواہی لی مگر پھر بھی اس وقت تک اپنی محبوب بیوی کے معاملے میں صریح فیصلہ نہ سنایا جب تک اللہ نے خود شہادت نہ دے دی۔ کیا علی رضی اللہ عنہ اور فاطمہ رضی اللہ عنہا کے جھگڑے کی خبر ہونے کے باوجود بیٹی سے ہمدردی جتانے گئے یا مداخلت کی؟ نہیں، کیونکہ یہ غیر دانشمندانہ اقدام ہوتا۔
کیاحضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو باوجود طاہرہ اور رشیدہ ہونے کے دور دراز کاروباری معاملات کے لئے ایک مرد ہی کی تلاش نہ تھی؟ اگر جسمانی، ذہنی اور جذباتی لحاظ سے عورت اتنی مستحکم ہوتی تو کیا وہ رشیدہ خاتون اپنے کاروباری معاملات کی نگرانی کے لئے کسی مرد کو ڈھونڈھتی؟ ہم اُم عمارہ، صفیہ،عائشہ اور خولہ رضہ کی مثال پیش کر کے عورت کی چار دیواری سے باہر عورت کے با اختیار ہونے کی بات کرتے ہیں مگر کیا کہیں عورت کو قائد بنایا گیا؟ سالار بنایا گیا؟۔
ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سی گھریلو الجھنیں مرد کے متوازن رویے سے سلجھ جاتی ہیں، بہت سے جذباتی فیصلے جو عورت کو با اختیار بنانے سے تباہ کن ہو سکتے تھے مرد کے غیر جذباتی اور دانشمندانہ کردار کی وجہ سے مثبت نتائج لاتے ہیں۔ ہاں مگر مرد ہمیشہ درست نہیں ہوتا اور عورت ہمیشہ غلط نہیں ہوتی۔نظم کے لحاظ سے مرد بالاتر ضرور ہے مگر انجام تو تقویٰ کے حساب سے ہی ہو گا۔بلا تفریق مرد وعورت جس کے پلڑے میں جو ہو گا وہی تولا جائے گا۔ آئیے مرد کی بالادستی کو دعوت مبارزت دینا چھوڑئیے اور نیکی اور بھلائی کے کاموں میں سبقت لے جانے کی کوشش کریں۔