تعلیم کا بین الاقوامی دن منایا گیا اور رواں سال کا یہ دن افغان خواتین اور لڑکیوں کے نام کیا گیا ہے۔ تعلیم ایک بنیادی انسانی حق، عوامی بھلائی اور عوامی ذمہ داری ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے امن اور ترقی کے لئے تعلیم کے کردار کو تسلیم کرتے ہوئے ہر سال 24 جنوری کو تعلیم کے بین الاقوامی دن کے طور پر منانے کا اعلان کیا تھا۔ تعلیم کا حق انسانی حقوق کے عالمی منشور کے آرٹیکل 26 میں درج ہے۔ اس اعلامیے میں مفت اور لازمی ابتدائی تعلیم کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ بچوں کے حقوق سے متعلق 1989 میں منظور ہونے والے کنونشن میں مزید کہا گیا ہے کہ تمام ممالک اعلیٰ تعلیم کو سب کے لیے قابل رسائی بنائیں۔ اسی طرح بعد میں جب ستمبر 2015 میں اقوام متحدہ کا پائیدار ترقیاتی ایجنڈا 2030 اپنایا گیا تو، بین الاقوامی برادری نے تسلیم کیا کہ تعلیم ایجنڈے کے تمام 17 ترقیاتی اہداف کی کامیابی کے لئے ضروری ہے۔ پائیدار ترقی سے متعلق ہدف 04 کا خاص طور پر مقصد ہی یہی ہے کہ2030 تک ”جامع اور مساوی معیار تعلیم کو یقینی بنایا جائے اور سب کے لئے سیکھنے کے مواقع کو فروغ دیا جائے”۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کسی بھی ملک کی تعمیر و ترقی میں تعلیم کو مرکزی اہمیت حاصل ہے اور کوئی بھی سماج تعلیم کے بغیر معاشی و معاشرتی ترقی کی منازل طے نہیں کر سکتا ہے۔ تعلیم ہی دراصل وہ بنیاد ہے جس پر کسی بھی معاشرے کی مضبوط بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔ اگر یہ بنیاد کمزور ہو گی تو معاشرہ پائیدار طور پر آگے نہیں بڑھ سکے گا اور اگر بنیاد مضبوط ہو گی تو ترقی کی نئی راہیں اُس ملک و معاشرے کا مقدر ہوں گی۔ عہد حاضر میں دنیا کے کسی بھی ترقی یافتہ یا تیزی سے ابھرتے ہوئے ملک کی مثال لے لیں، تعلیم و تحقیق ہی اُس ملک کی کامیابیوں کے پیچھے کارفرما ہو گی۔ دوسری جانب یہ امر بھی قابل زکر ہے کہ تعلیم کسی معاشرے کو محض اقتصادی سماجی ترقی سے ہمکنار نہیں کرتی ہے بلکہ وہاں ایسی اعلیٰ اخلاقی قدروں کو بھی پروان چڑھاتی ہے جو نسل درنسل منتقل ہوتے ہوئے اُس معاشرے کا خاصہ بن جاتی ہیں۔
ترقی یافتہ ممالک کے برعکس ترقی پزیر ممالک میں تعلیمی معیار کی پسماندگی سے بیروزگاری، غربت، بدعنوانی سمیت دیگر کئی سماجی مسائل نے جنم لیا ہے اور ترقی کے سفر میں بھی بے شمار رکاوٹیں پیدا ہوئی ہیں۔ تعلیم کے فروغ سے عروج کے سفر کی بات کریں تو ترقی پزیر ممالک میں ہمارے پاس سب سے بڑی مثال چین کی ہے جس نے انتہائی قلیل عرصے میں کرشماتی ترقی کی منازل تیزی سے طے کی ہیں اور آج دنیا کی دوسری بڑی معیشت کے درجے پر فائز ہے۔سن 1949میں عوامی جمہوریہ چین کے قیام کے بعد نئی حکومت کی پہلی ترجیح اور اہم ہدف صنعت کاری کا فروغ تھا لیکن جلد ہی اس حقیقت کا ادراک کیا گیا کہ صنعت کاری کی ترقی کیسے ممکن ہے جب ملکی آبادی کا تقریباً 80فیصد ناخواندہ ہے۔ چینی قیادت نے اس ہدف کے حصول کو اتنی بڑی تعداد میں ناخواندہ آبادی کے ساتھ ناممکن قرار دیا۔ چین کے لیے صورتحال اس لحاظ سے بھی گھمبیر تھی کہ دنیا کے گنجان آباد ترین ملک میں صرف تقریباً ایک لاکھ طلباء جامعات میں زیرتعلیم تھے جبکہ ہائی اسکولوں میں زیرتعلیم طلباء کی تعداد بھی تقریباً دس لاکھ تھی۔ اُس وقت چینی حکومت کی یہ کوشش بھی تھی کہ ملک کو ایک جدید معاشرے میں ڈھالا جائے لیکن تعلیمی پسماندگی اس عمل میں سب سے بڑی رکاوٹ تھی۔ دوراندیش چینی قیادت نے مستقبل کو مدنظر رکھتے ہوئے شرح خواندگی میں اضافے کے لیے ایک قومی تعلیمی مہم کا آغاز کیا۔ اس مہم کے تحت ہزاروں افراد کو ملک کے کونے کونے میں بھیجا گیا تاکہ وہ بچوں اور بالغوں کو پڑھنا لکھنا سکھا سکیں اور انہیں ریاضی کی بنیادی تعلیم دی جا سکے۔ اس مہم کے دوران ملک بھر میں ہزاروں ”نائٹ اسکول” کھولے گئے اور کسانوں، مزدوروں، نوجوانوں غرضیکہ ہر مردو زن کی حوصلہ افزائی کی گئی کہ وہ کتاب و قلم سے اپنا تعلق استوار کریں۔ ان کوششوں کے جلد ثمرات سامنے آنا شروع ہوئے اور 1964میں کیے جانے والے ایک سروے میں یہ بات سامنے آئی کہ ایک دہائی سے زیادہ عرصے کی مسلسل کوششوں کے باعث ملک میں ناخواندگی کی شرح 50فیصد کی سطح تک آ چکی ہے۔
چین میں اگرچہ نو سالہ لازمی تعلیم کا قومی نظام 1986میں متعارف کروایا گیا مگر اس سیقبل بھی غریب گھرانوں کے بچے بلا معاوضہ تعلیم حاصل کر سکتے تھے۔ سن2000میں نو سالہ لازمی تعلیم پر مکمل عمل درآمد کو اسکول کی عمر کو پہنچنے والے بچوں کی 100فیصد شرح اندراج سے یقینی بنایا گیا۔ نو سالہ لازمی تعلیمی نظام سے حاصل شدہ کامیابیوں کی روشنی میں اعلیٰ تعلیم کی ترقی پر توجہ دی گئی۔ کچھ ترقی یافتہ علاقوں میں سینئر ہائی اسکول تعلیم کو لازمی قرار دیا گیا، اسی طرح گزشتہ عرصے میں کالج میں داخلہ لینے والے طلباء کی تعداد میں بھی نمایاں حد تک اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ برس 2022 میں ملک بھر میں 11.93 ملین امیدوار کالج داخلہ امتحان میں شریک ہوئے جو عددی اعتبار سے ایک نیا ریکارڈ ہے، جبکہ جامعات اور دیگر فنی پیشہ ورانہ اداروں میں تعلیم حاصل کرنے والے طلباء اس کے علاوہ ہیں۔
اعلیٰ تعلیمی نظام کی ترقی سے چین میں سائنس و ٹیکنالوجی سمیت دیگر شعبہ جات کو بھرپور فروغ ملا ہے۔آج چین سائنسی تعلیم کی بنیاد پر ایک معتدل خوشحال معاشرے کی تعمیر مکمل کر چکا ہے اور ایک جدید سوشلسٹ ملک کی تعمیر کے نئے سفر پر گامزن ہے۔انفارمیشن ٹیکنالوجی سے وابستہ جدید تصورات مثلاً آرٹیفیشل انٹیلی جنس، روبوٹکس،ٹیلی مواصلات،ڈرون ٹیکنالوجی وغیرہ میں چین دنیا میں سرفہرست ممالک میں شامل ہے۔ چین کی کوشش ہے کہ طلباء کے ایک بہتر اور روشن مستقبل کی خاطر انہیں اعلیٰ معیار کی حامل تعلیم دی جائے کیونکہ تعلیم، ترقی کی بنیاد ہے اور بنیاد جس قدر مضبوط ہو گی عمارت بھی اُسی قدر ٹھوس اور پختہ ہو گی۔