ہمارے گھر کے قریب تین جامع مساجد ہیں۔ سوئی گیس آفس کے پاس طلحہ مسجد (مادر علمی) ، منگل مارکیٹ میں غوثیہ مسجد اور جاوا چوک میں علی المرتضی مسجد ہے۔ اول الذکر مادر علمی ہے جہاں ہم نے قریبا 13 برس گزارے، اس کے علاؤہ گھر کے قریب ترین مساجد میں غوثیہ اور علی المرتضی مسجد ہے۔ تینوں مساجد میں چپل چوری کی وارداتوں کے علاؤہ دیگر انتہائی سطح کی وارداتوں کی اطلاع بھی گاہے بگاہے ملتی رہتی ہے۔ گزشتہ ہفتے دو دفعہ چپل چوری کی کارروائی بذات خود ہمارے ساتھ ہوئی، خیر یہ بات تو ہمارے سماج کا ایسا جزو لا ینفک بن چکا ہے کہ اس بنا اب گزارا نہیں، بھلا ہو مسجد کے خادم کا ، ایمرجنسی بنیادوں پر ہمیں ایک جوڑا فراہم کیا۔
کل ظہر کے بعد جب باہر نکلا تو وہی خادم صاحب کسی صاحب کے ساتھ انتہائی سنجیدہ لہجے میں گفتگو فرما رہے تھے، پتا کرنے پر معلوم ہوا کہ رات کو مسجد کا ہیٹر چوری ہو گیا، خادم مسجد انتہائی لاچاری کی حالت میں کہنے لگے دیکھیں اب ہم کیا کریں، ہمارا کام نمازیوں کے لیے سہولیات کا خیال رکھنا، رات کو بر وقت مسجد کے دروازوں کو لاک کرنا ہے، لیکن پھر بھی کسی نے کارروائی ڈال دی۔ چونکہ بات مساجد سے متعلق ہے تو انہوں نے مزید ایک خبر سنائی کہ یہاں تو رات کو کارروائی ڈالی گئی لیکن غوثیہ مسجد میں دن دیہاڑے ساؤنڈ سسٹم غائب ہو گیا۔طلحہ مسجد نہ صرف ایک جامع مسجد ہے بلکہ وہ ایک عظیم جامعہ (یونیورسٹی) بھی ہے، جہاں ملک کے دور دراز علاقوں سے علم کے پیاسوں کو سیراب کیے جانے کی شب و روز سعی کی جاتی ہے۔ وہاں مسجد کے اندر سے چوری ہونا(جوتوں کے علاؤہ) ممکن نہیں، کیوں کہ ہر لمحہ طلباء وعلماء کی آمدورفت رہتی ہے، لیکن مسجد سے باہر چیزیں پھر بھی خطرے سے دو چار ہیں، خاص کر چندے کے ڈبے ، جو کئی دفعہ وارداتوں کا سامنا کر چکے ہیں۔
اس ساری صورت حال کو جب انسان دیکھتا ہے تو لا محالہ ایک سوال دماغ کے گوشوں سے انگڑائی لیتا ہے، مجھے قوی امید ہے کہ عوامی حلقوں میں بھی ایسے واقعات کے بعد اس قسم کے سوالات کی گونج ہو گی کہ ان لوگوں کو خدا کا خوف بھی نہیں آتا کہ وہ خدا کے گھر سے چوری کرتے ہیں؟ یعنی چوری کی وجہ صرف خدا کے خوف کے نہ ہونے کو قرارا دیا جاتا ہے۔
یہ ایک بنیادی سوال ہے اور یقینا اگر ہمیں سردی کے موسم میں گرم بستر مہیا ہو، ہمارے بچوں کو موسم کے لحاظ سے تمام سہولیات میسر ہوں، تین یا کم از کم دو وقت کا کھانا بڑی آسانی سے مل رہا ہے ، ہمارے بچوں کے لیے روز مرہ کی ضروریات پوری ہو رہی ہوں ، ہمارے چولہے گرم ہوں، ہماری رہائش اچھی ہو، ہمیں کل کی فکر نہ ہو کہ آنے والے کل کا کہاں سے ، کیسے بندو بست ہو گا؟ تو ہم بیٹھ کر آرام سے دیگر مقامات کے علاوہ خاص کر مساجد میں چوری کی وراداتوں سے متعلق یہ کہہ سکتے ہیں کہ خدا کا خوف ختم ہو گیا ہے۔
لیکن اس سے پہلے کہ ہم بات کو اس کی آخری حد یعنی خوف خدا کی کمی سے شروع کریں، ایک لمحہ رکیے، اور سوچیے کہ ایک بندہ اگر اس انتہائی قدم تک گیا ہے تو آخر کس وجہ سے گیا ہوگا؟ کیا واقعی وہ اس قدر بے خوف اور جری ہو گیا ہے کہ اس کادل مہر زدہ ہو گیا ہے کہ اس سے خدا کا خوف نکل گیا، اور نتیجتا وہ مساجد کی اشیاء چوری کر رہا ہے یا معاملہ کوئی اور ہے؟
چوری کرنا یقینا ایک جرم ہے، چوری کی مخصوص حد جس کی سزا ہاتھ کاٹنا تھی، ملکی صورت حال کے پیش نظر اس کی سزا کیا ہوگی، یہ علماء وقت ہی فیصلہ کر سکتے ہیں، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں جب قحط آیا تھا تو یہ سزا منسوخ کر دی گئی تھی، اس کی بنیادی وجہ شاید یہی تھی کہ سزائیں تب لاگو ہوتی ہیں جب رعایا کی تمام بنیادی ضروریات پوری ہو رہی ہوں اور پھر کوئی فساد کے لیے کرنا شروع کر دے لیکن اگر بنیادی ضروریات ہی تعطل کا شکار ہو جائیں، اور پھر خاص کر اگر عوام بھی ایسے ہوں جن کا کوئی پراسان حال نہ ہوتو ان کے حکمرانوں کی ان کی فکر نہ ہوتو شاید وہاں سزائیں کیا ، اخلاقی قواعد و ضوابط بھی منسوخ ہو جاتے ہیں ، پھر یہ پرواہ نہیں ہوتی کہ گھر خدا کا ہے یا اس کے بندے کا۔وہاں صرف ایک فکر کار فرما ہوتی ہے کہ وہ کس طرح ان حالات کا سامنا کرسکتا ہے، وہ اپنے بال بچوں کے لیے ایک وقت کی روٹی کہاں سے لائے گا اور جب کوئی رستہ نہیں ملتا، کوئی چارہ نہیں ہوتا، کوئی سہارا نہیں رہتا تو انسان شاید کانپتے ہاتھوں، بہتی آنکھوں سے کوئی انتہائی قدم اٹھا بیٹھتا ہے۔ تو اس لیے ہمیں سوچنا ہوگا کہ بات صرف خوف خالق کی کمی نہیں، بلکہ مخلوق کی بے چارگی بھی ہو سکتی جس سے اس طرح کے واقعات رو نما ہوتے ہیں۔